• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار دسمبر 2025ء پاکستان کیلئے ایک اور اہم تاریخ ایک نیا تجربہ، ملک ایک نئے عسکری انتظام میں داخل ہو گیا ہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور کا بنایا ہوا چیف آف اسٹاف کا نظام اس حد تک بدل گیا ہے کہ اب چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی جگہ کمانڈر ڈیفنس فورسز کا نیا طاقتور عہدہ آگیا ہے۔ اور اس کی مدت بھی پانچ سال ہوگی۔ کروڑوں ووٹوں سے منتخب ہونیوالی پارلیمنٹ کی مدت بھی پانچ سال اور کمانڈر ڈیفنس فورسز کی بھی پانچ سال ۔ہر آرمی چیف اب کمانڈر ڈیفنس فورسز بھی ہوگا۔ قیام پاکستان کے وقت کمانڈر ان چیف سے شروع ہونے والا سفر اب ترقی کرتے کرتے کمانڈر ڈیفنس فورسز کی منزل تک پہنچ گیا ہے۔ بحریہ فضائیہ کے بھی اپنے اپنے چیف ہونگے لیکن آرمی چیف کمانڈر ڈیفنس فورسز کی حیثیت میں انکے بھی کمانڈر ہونگے۔ اسےUnity in command کہتے ہیں۔ بہت سے دوسرے ملکوں میں بھی ایسے تجربے ہو چکے ہونگے۔ جب جب1958ء، 1969ء، 1977ءاور 1999ء کے مارشل لا لگے تو وہ آرمی سربراہوں نے ہی لگائے پھر وہی ریاست کے سربراہ بھی بنے اور تینوں فورسز انکے ماتحت رہیں۔ تینوں فورسز ہی نہیں پورا ملک پوری بیوروکریسی بھی ان کے تحت آگئی۔ یہ نظام کیسے رہے۔مارشل لا کیسے رہے اس موضوع پر تحقیقی کتابیں آ چکی ہیں۔حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں بھی اس موضوع پر تبصرے ملتے ہیں۔ غیرملکی مصنفین اخبار نویسوں نے بھی اس نظام کے حوالے دیئے ہیں۔ خود ریٹائر ہونیوالے جنرلوں نے جب کتابیں لکھیں اس میں بھی اس نظام پر تنقید یا تعریف کی گئی۔ جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ اب ختم ہو گیا ہے۔1976 ءسے ہونیوالا یہ تجربہ اب تک کیسا رہا اس پر ایک غیر جانبدارانہ تحقیق ہونی چاہیے اور اب نئے نظام سے کیا کیا توقعات کی جا سکتی ہیں۔ ابھی بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ ایک شخصیت کی کارکردگی کو پیش نظر رکھ کر یہ عمارت تعمیر کی گئی ہے لیکن آنیوالے برسوں میں اگر یہ نظام چلتا ہے تو شخصیات بدلتی رہیں گی ۔اور وہ سارے اختیارات اور استثنیٰ جو موجودہ کمانڈر ڈیفنس فورسز کو ہیں وہ آنیوالوں کو بھی حاصل رہیں گے ویسے تو یہ نظام صرف دفاعی فورسز تک ہے لیکن اس تاریخی موقع پر پہلے کمانڈر ڈیفنس فورسز نے کہا ہے کہ اب ملک میں سب ٹھیک ہے آپ کے سامنے ہے مزید بہتری آئیگی پاکستان اور اونچی اڑان اڑے گا۔اس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ انکے ذہن میں دفاع کے علاوہ بھی ملک کے بارے میں کچھ تصورات اور امکانات ہیں۔ آرمی چیف کی حیثیت سے وہ معیشت سرمایہ کاری، معدنی امور اور پاکستان کی معاشی پیشرفت کے حوالے سے اکثر میٹنگوں میں شریک ہوتے رہے ہیں اور بہت سود مند مشورے بھی دیتے رہے۔ ہمارے صدر مملکت وزیراعظم کے بیانات سے بھی یہ مترشح ہوتا رہا ہے کہ وہ اہم ملکی امور میں آرمی چیف کی فراست سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ تاثر بھی لیا جا سکتا ہے کہ اب ملکی ترقی کیلئے جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر کام کیا جائیگا ۔ویسے میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کی ہی پیشکش ہیں۔ آصف علی زرداری اگرچہ 1987 میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے شادی کے بعد امور مملکت پر اثر انداز ہونا شروع ہوئے ہیں لیکن انہوں نے بھی 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں نواب شاہ سے حصہ لیا تھا ۔

میری درد مندانہ گزارش ہوتی ہے کہ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو ملک کے اہم شعبوں کی کارکردگی کا جائزہ اور انکی روشنی میں ملک کے مستقبل کے اشارے مرتب کرنا چاہئیں۔ ان رپورٹوں کی تیاری میں یہ خیال اور خوف ہرگز لاگو نہیں ہونا چاہیے کہ اس تحقیق سے حکمران ناراض نہ ہو جائیں۔ یہ رپورٹیں تو حکمرانوں کی رہنمائی کیلئے ہی ہوتی ہیں اور اب چار دسمبر کے اس تجربے کے بعد ان تمام تحقیق کے اداروں یونیورسٹیوں کو دیکھ لینا چاہیے کہ چار دسمبر 2025ء کو پاکستان تعلیم، صحت، دفاع، زراعت، معیشت، تجارت، صنعت، برآمدات،آئی ٹی، مینوفیکچرنگ، بین الصوبائی تعلقات، دہشت گردی کے خاتمے، کرپشن، خواندگی کی شرح، غربت کی لکیر سے نیچے کے پاکستانیوں کی تعداد، انفراسٹرکچر، ریلوے، پل ڈیموں، آبپاشی، شاہراہوں، سیاحت ٹرانسپورٹ میں کہاں کھڑا تھا۔ اس کے بعد ایک مدت طے کر لی جائے کہ یہ ادارے میڈیا ہر ماہ یا تین ماہ بعد قوم کو حقیقی اشاریے پیش کرتے رہیں کہ پارلیمنٹ کی 26ویں اور 27 ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں جنم لینے والے عدالتی قانونی اور دفاعی نظاموں کے بعد کس شعبے میں ملک کتنا آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ضروری ہے جیسے ڈاکٹر صاحبان ہم بوڑھوں سے وزن، بلڈپریشر، آکسیجن اور شوگر کے چارٹ بنواتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس نظام کے بعد ہماری امریکہ پالیسی، اسرائیل پالیسی، انڈیا پالیسی، مذہبی پالیسی ،چین پالیسی ،مشرق وسطی پالیسی، افغانستان پالیسی اور ایران پالیسی کیا ہوتی ہے ۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں، بہوؤں دامادوں کیساتھ دوپہر کے کھانے پر تبادلہ خیال انکے سوالات کے جوابات دینے کا دن۔ میری بنیادی گزارش یہی ہوتی ہے کہ اپنے گھر کو ہم مستحکم کریں اپنے مسائل خود حل کریں۔ اولادوں کے ذہن میں جو سوالات تڑپ رہے ہیں انکا جواب دیں۔ پھر نماز عصر کے بعد محلے داری کو مستحکم کریں گھر اور محلہ مستحکم ہوگا تو ہمارے شہر از خود مستحکم ہو جائینگے ۔بنیادی خواہش یہی ہے کہ ہمارے اپنے کرنے کے جو کام ہیں وہ تو ہم خود کر لیں۔الم ناک سانحہ نیپا نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا ہے۔ کھلے مین ہول اور نکاسی آب پورے ملک کا ہی مسئلہ ہے۔ تین سالہ ابراہیم تو ہمیں واپس نہیں ملے گا مگر اس کی مسکراہٹ ہمارے دلوں میں ایک امانت اور ایک وارننگ بن کر رہےگی ۔وزیراعلیٰ سندھ نے کے ایم سی کے سینئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز، اسسٹنٹ ایگزیکیوٹو انجینئر میونسپل ٹاؤن گلشن اقبال، ایگزیکٹو انجینئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن ،اسسٹنٹ کمشنر گلشن اقبال اور متعلقہ دو مختیار کاروں کو معطل کیا ہے ۔اس سے ایک نیٹ ورک کا تعین ہو گیا ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں صرف سندھ کے شہروں میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے شہروں میں یہ طے ہو گیا کہ میونسپل خدمات کے ذمہ دار کون کون سے افسر ہیں۔ورنہ اب تک یہ ذمہ داریاں ایک دوسرے پر ڈالی جاتی تھیں۔ ہر ٹاؤن کے شہریوں کو بھی یہ اندازہ ہو جانا چاہیے کہ ایسے مسائل کے سلسلے میں کس افسر سے رجوع کرنا ہے۔کیا کراچی کے دوسرے ٹاؤنوں میں متعین ہم منصبوں نے اپنے اپنے علاقے کا جائزہ لیا ہے کہ کہاں کہاں میونسپل خدمات موجود ہیں کہاں نہیں۔ اللہ کرے کہ کسی اور غنچے کے بن کھلے مرجھانے سے پہلے ہی افسران اپنی ذمہ داریوں کا احتساب کر لیں۔

تازہ ترین