• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج پھر5جولائی ہے 37برس قبل الیکشن میں دھاندلی کے الزام میں چلنے والی تحریک کومارشل لاء کے انقلاب میں کامیاب کرایاگیا۔پاکستان کی تاریخ بہت جلداپنے آپ کودھرانے لگ جاتی ہے۔آج بھی ایک پارٹی چارحلقوں میں دھاندلی کاالزام لگاکراسلام آباد کی طرف یلغارکرناچاہتی ہے۔ایک اورسیاسی پارٹی انقلاب کے نام پرجمہوری نظام اورالیکشن سسٹم کے خلاف دھرنادیناچاہتی ہے۔ہمارے رہنمائوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔پاکستان قومی اتحادنے1977؁ٗ؁ء میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کی۔درجنوں دانشوروں اورپی این اے کے قائدین نے اس تحریک اورجنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے متعلق کتابیں لکھی ہیں۔تمام قائدین ایک دوکوچھوڑکرخلوص نیت کے ساتھ تحریک چلارہے تھے۔اس کاثبوت یہ ہے کہ بامقصداورسنجیدہ مذاکرات شروع کئے گئے۔تمام سیاسی قائدین اوردانشوراس بات پرمتفق ہیں کہ PNAاورحکومت کے درمیان تمام معاملات پراتفاق ہوگیاتھا۔بدقسمتی سے جس رات مذاکراتی کمیٹی نے کامیابی کااعلان کیااسی رات شب خون ماراگیا۔5جولائی1977؁ء کے مارشل لاء نے کسی سیاسی لیڈرکوفائدہ نہیں پہنچایا۔ایئرمارشل اصغرخان پرالزام لگایاجاتاہے کہ انہوں نے خط لکھ کرفوج کوکارروائی کی دعوت دی۔میں اس بحث میں نہیں پڑرہاکہ خط لکھناصحیح تھایاغلط لیکن ایک حقیقت کوجانتاہوں کہ اصغرخان نے جنرل ضیاء الحق کے دورحکومت میں پانچ سال نظربندی میں گزارے۔جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء کسی سیاستدان کیلئے نہیں لگایاتھابلکہ اپنے لئے لگایاتھاکوئی فوج کسی کیلئے سیڑھی نہیں بنتی۔بلکہ سچ تویہ ہے کہ سیاستدان ان کیلئے سیڑھی بنتے رہے ہیں۔جنرل ضیا ء الحق نے اپنانظام بنایا۔اپنے سیاستدان بنائے اور11سال ڈٹ کرحکومت کی۔قوم اورملک کے مسائل کوڈنڈے کے زورپرحل نہیں کیاجاسکتا۔آج بھی دنیاکابہترین نظام جمہوریت کانظام ہے۔5جولائی1977؁ء کومنتخب جمہوری حکومت کاتختہ اُلٹاگیا۔لیکن جنرل ضیاء الحق نے جمہوری نظام کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔تین بلدیاتی انتخابات،صوبوں کی اسمبلیاں اورمجلس شوریٰ بناکرعوام کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی اوربالآخرغیرجماعتی انتخابات کراکربراہ راست لوگوں کوشریک کیاگیا۔جنرل مشرف نے مارشل لاء لگاکربھی بلدیاتی انتخابات اورعام انتخابات کرائے۔سوال یہ ہے کہ اگرعوام کی شمولیت ہی ضروری ہے اورجمہوری نظام ناگزیرہے توپھر5جولائی1977؁ء اور3نومبر1999؁ء کی کیاضرورت ہے؟قوموں کی تاریخ ایک دن میں نہیں لکھی جاتی۔ملک مضبوط ہونے،ادارے بننے اورجمہوریت کاپھل کھانے کیلئے صبرکی ضرورت ہوتی ہے۔ذوالفقارعلی بھٹوکی کی حکومت کاتحتہ الٹنے کاکوئی جوازنہیں تھا۔اس طرح میاں نوازشریف کی حکومت کوگھربھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔مختلف بہانوں اورسیاستدانوں کو استعمال کرکے ملک ،قوم اورجمہوریت کومضبوط اورتوانانہیں بناسکتے۔اگرآپ ایک پودے کوہرپانچ سال بعداکھاڑدیں اورپھرنیاپودالگائیں توکیایہ پوداکبھی بھی مضبوط درخت بن سکے گا۔ذوالفقارعلی بھٹوکوچلنے دیاجاناچاہئے تھادوبارہ الیکشن کرائے جاتے یاالیکشن کے نتائج کوتسلیم کیاجاتاتوآج ملک لوہے کی طرح مضبوط ہوتا۔جمہوریت بھی اپنے رنگ دکھارہی ہوتی اورطالبان کاجن بھی پیدانہ ہوتا۔5جولائی1977؁ء کادن ہمیں سبق سکھاتاہے کہ سیاستدانوں،سیاسی پارٹیوں اور اسٹیک ہولڈرزکوبرداشت پیداکرنی چاہئے ۔2008؁ء کے اتنخابات میں پیپلزپارٹی اورپاکستان مسلم لیگ(ن)کوبڑی پارٹیوں کی حیثیت ملی۔میں سمجھتاہوں کہ دونوں پارٹیوں نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ایک دوسرے کوبرداشت کیا۔سخت مخالفت کے باوجودحکومت کوپانچ سال پورے کرنے دئیے گئے۔میں نے ہمیشہ کہاہے کہ پی پی پی کی حکومت کوپانچ سال پورے کرنے کاکریڈٹ میاں نوازشریف اورمیاں شہبازشریف کوجاتاہے۔انکی برداشت نے جمہوری پودے کی آبپاری کی آج برداشت کی بہت کمی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی دوسری بڑی پارٹی ہونے کے باوجوداپنی سیاسی حیثیت کھوبیٹھی ہے۔جس کے نتیجے میں تحریک انصاف اوردوسری سیاسی پارٹیوں کوآگے آنے کاموقع مل رہاہے۔عمران خان،ڈاکٹرطاہرالقادری اوردوسرے لیڈروں کے پاس سیاسی تجربہ ہے نہ حکومتی اورنہ ہی جمہوری آپروچ۔
14ماہ کی حکومت کوہٹانے اوراسکے خلاف تحریک چلانے کاکوئی جوازنہیں۔جس پارٹی کی ایک صوبے میں حکومت ہواوردوسرے صوبے میں اپوزیشن کی قیادت اورقومی اسمبلی میں بھرپورنمائندگی اسکی طرف سے اسلام آبادکی طر ف مارچ کی سمجھ نہیں آرہی۔ڈاکٹرطاہرالقادری صاحب عوام کی بات کرتے ہیں۔انقلاب کی بات کرتے ہیں توانہیں عوام کے پاس جاناچاہئے۔عوام کامینڈیٹ حاصل کرناچاہئے۔5جولائی1977؁ء سے سبق سیکھناچاہئے۔فوج کودعوت دینے کاکوئی فائدہ نہیں ۔عمران خان اورڈاکٹرطاہرالقادری نے پہلے بھی جنرل مشرف کی حمایت اس لئے کی تھی کہ انکواقتدارمل جائے۔فوج کواقتدارمیں آنے کاکوئی شوق نہیں۔پاکستان کی فوج ملک کومحفوظ بنانے کیلئے اوردہشت گردی کے خاتمے کیلئے جانوں کی قربانی دے رہی ہے توہم پھرکس مقصدکیلئے انکودعوت دے رہے ہیں۔یادرکھناچاہئے کہ اگرفوج کومجبوراََاورسیاستدانوں کے پیداکردہ حالات کی وجہ سے اقتدار میں آنا پڑا تو پھر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو حصہ نہیں ملے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوری مسائل کوجمہوری طریقے سے حل کیاجائے پارلیمنٹ تمام مسائل کاحل ہے۔مذاکرات کے ذریعے معاملات کوحل کیاجاسکتاہے ۔ایک سال گزرانہیں آپ نے احتجاج اوردھرنوں کااعلان کردیا۔کیااس کے نتیجے میں مڈٹرم انتخابات ہوجائیں گے؟مڈٹرم انتخابات مسائل کاحل نہیں ہوتا لیکن ناگزیر وجوہات ہوں تو مڈٹرم انتخابات واحد حل رہ جاتا ہے۔ اگر میاں نواز شریف نے مڈٹرم انتخابات کا اعلان کر دیا تو کس کو یقین ہے کہ عمران خان اتنی سیٹیں بھی لے سکیں گے،آج بھی دنیاکہتی ہے کہ اگرذوالفقارعلی بھٹو1977؁ء میں دوبارہ انتخابات کااعلان کردیتے توبڑی اکثریت سے کامیاب ہوتے۔اگرمیاں نوازشریف بھی مڈٹرم انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہوگئے توپھرکیابنے گا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی مڈٹرم انتخابات کوہونے نہیں دیتااورپھراستعمال ہونے والے جیلوں میں چلے جاتے ہیں اورحکومت کرنے والے 5جولائی1977؁ء کی طرح کئی کئی سال حکومت کرتے ہیں۔
تازہ ترین