• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں میرے سامنے اپنی آٹھ دہائیاں بھی ہوتی ہیں۔اپنے سے کم عمر پاکستان کی سات دہائیاں بھی اور معلوم تاریخ کی صدیاں بھی۔ہم کیا کچھ نہیں دیکھ چکے۔کیا کچھ نہیں سہہ چکے۔ کون سا سانحہ ہے جو ہم پر نہیں گزرا ۔کون سا المیہ ہے جس نے ہمیں نہیں رلایا ۔کس حکمرانی کا تجربہ ہم پر نہیں کیا جا چکا ۔کیسے کیسے حکمران ہم نےدیکھے ہیں ۔جابر، شاطر ،مخلص،حریص ،آئین دینے والے، آئین توڑنے والے ۔میری انگلیاں جب کاغذ پر حرف نقش کرتی ہیں۔ کہیں کراچی جیل سے مجھے چیخیں سنائی دیتی ہیں ۔کہیں خضدار سے آہیں فلک کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہیں ۔کبھی دیکھتا ہوں مچھ جیل سے فغاں بلند ہو رہی ہے۔ منٹگمری جیل میں حبس بڑھ رہا ہے۔ اٹک کے قلعے میں چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ حیدرآباد سینٹرل جیل میں عدالتیں لگی ہوئی ہیں۔ کوہ ِمردار پر پراسرار سائے لرز رہے ہیں۔ کٹی پہاڑی پر خون کی بارش ہو رہی ہے ۔شاہی قلعے میں مزاحمت کے ترانے گونج رہے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے 25 کروڑ میں سے 48 فیصد ہم وطن دو وقت کی روٹی کیلئے ہانپ رہے ہیں، کانپ رہے ہیں۔واہگہ سے گوادر تک اکثریت کسی صبحِ حسین کی امید میں اندھیروں سے لڑ رہی ہے۔یہ چوتھی یا پانچویں نسل ہے جو گھروں کی دیواروں پر صرف اداسی کو بال کھولے سوتے دیکھ رہی ہے ۔ان میں وہ پاکستانی بھی ہیں جو برصغیر کے ان مسلمان اکثریتی علاقوں میں پہلے سے ہی رہتے تھے ۔وہ پیدائشی پاکستانی ہیں بلکہ موروثی پاکستانی ۔یہاں وہ تین نسلیں بھی ہیں جنہوں نے اپنے ہنستے بستے گھر خود چھوڑے۔ مسلمانوں کیلئے حاصل کردہ ایک الگ وطن میں رہنےکیلئے ۔ اپنی اولادوں کے محفوظ معاشی مستقبل کیلئے ۔ اپنی مرضی کی آزاد زندگی گزارنے کیلئے ۔ یہ اکثریت جو 90 فیصد سے کم نہیں ہے ۔ان کی چار نسلوں نے کبھی خوشحالی تو کیا معمول کی مطمئن زندگی بھی نہیں گزاری ۔ان کے دن رات کرب میں گزرے ہیں۔ان کے دکھ درد بانٹنے کیلئے، ' ان کی نجات کیلئے جو رہنما سامنے آئے ۔ان کوجیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں کئی کئی سال رکھا گیا ۔کیونکہ وہ وطن کے گیت گاتے تھے۔ انہیں پھانسی کے تختوں پر موت کے حوالے کیا گیا ۔اس اکثریت نے یہ بھی دیکھا کہ جو ہوس پرست تھے کرپشن کے عادی تھے انہیں خلعتیں پہنائی گئیں، تمغے عطا کیے گئے، ان کے کاروبار میں آسانیاں پیدا کی گئیں۔ اکثریت کی اولادیں تھانوں کچہریوں میںماری ماری پھرتی رہیں۔

بہت ظلم سہہ لئے، بہت رتجگےہو چکے، ہر قسم کے حکمران دیکھ لیے۔ فوجی آمر بھی، سویلین ڈکٹیٹر بھی، ہارڈ اسٹیٹ بھی، مضبوط مرکز بھی ریاست کا ڈنڈا بھی۔ اندھیر نگری چوپٹ راج بھی۔اب یہ کروڑوں صرف شفقت اور مامتا کے امیدوار ہیں۔ ابھی انہیں ایسا باپ چاہیے جو ان کے اپنے سگے باپ کی طرح خود ہر قسم کی اذیت رات دن برداشت کرے مگر اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر کرے انکی درسگاہوں کی فیسوں کیلئے اپنا پیٹ کاٹ کر انتظام کرے ۔خود ناشتہ یا دو وقت کی روٹی ملے نہ ملے بچوں کیلئے اسکول جانے سے پہلے اچھے ناشتے کا اہتمام کرے ایسا باپ جو گھر کو مستحکم کرے ۔جو سارے بچوں کی ایک سی پرورش کرے جو ایسا ماحول تخلیق کرے کہ سب کو معیشت میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں ۔ایسی ماں چاہیے جو انکی سگی ماں کی طرح ہر قسم کی مشکلیں سہے مگر بچوں کو کسی خوف یا ڈر کا سامنا نہ کرنے دے ۔وطن کی سلامتی کے نام پر اس اکثریت نے بہت قربانیاں دی ہیں تاریخ کے اوراق گواہی دیتے رہے ہیں کہ غربت کی لکیر سے نیچے کس طرح زندگی گزرتی ہے اور 1985 کے بعد کس طرح غربت کی لکیر سے نیچے ایک ہجوم جمع ہوتا رہا ہے۔ وہ تاریخ سے سوال کرتے ہیں کہ3600روپے میں دس بارہ جی ایک مہینے میں کیسے جیون کالمباراستہ کاٹتے ہیں ۔انہیں تو اپنے حصے کی روٹی بھی پوری نہیں ملتی۔ یہ دوسروں کا حق کہاں مار سکتے ہیں۔ پھر بھی ان کو ہی تھانوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ یہ کیسی کیسی قیامتیں مشاہدہ کر چکے ہیں ۔کیسے کیسی رعونتیں برداشت کر چکے ہیں۔ لاکھوں ہاری اپنے وڈیروں کی مطلق العنانیاں صدیوںسے سہہ رہے ہیں۔ لاکھوں کسان اپنے چوہدریوں کی چودھراہٹ کے بوجھ تلے برسوں سے دبے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں سرداروں کی عشرت کیلئےخود غربت قبول کرنیوالے عام بلوچ 'کے پی کے میں خوانین کے برچھوں کی نوکوں پر دن رات گزارنے والے محنت کش ۔یہ سب اب ایک نگاہ ِمحبت کی امید میں ہیں ۔ایسی صبح کی آس میں جب انہیں یقین ہو کہ آج کا دن کوئی ناانصافی دیکھے بغیر گزر جائے۔کوئی جج کا بیٹا ماورائے قانون ان کی بیٹیوں کو نہ کچلے۔ ان کے ادھ کھلے غنچے کسی کھلے مین ہول میں نہ گریں۔ ان کی محنت کی اجرت میں شام کو کٹوتی نہ کر دی جائے ۔انہیں سرکاری ہسپتال میں اپنے مریض کو ننگے فرش پر لٹانا نہ پڑے۔ انہیں شفقت کی ایک ہلکی سی تھپکی چاہیے۔ ایک محبت بھری نظر چاہیے۔ ایسے پبلک سرونٹ درکار ہیں جو انکی خدمت کریں نہ کہ ان کو ای چالانوں کے ذریعے حوالات میںڈالیں۔جدید ترین ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور الیکٹرک حکمرانی ان کیلئے بھی خوشحالی کا دور لے کر آئے ۔ہر جگہ لگے کیمروں کی آنکھیں صرف ان کی بیلٹ پر نہ جائیں۔ انکے بالوں میں اٹی مٹی بھی دیکھیں ،انکی انکھوں میں بے بسی بھی،ان کی پھٹی قمیص بھی ان کی ٹوٹی چپلیں بھی دیکھیں۔ ان کو ہر روز نئے قوانین خوفزدہ نہ کریں بلکہ ان کو قوانین کی یکساں پابندی کی امید دلائیں ۔واہگہ سے گوادر 'کیرتھر سے خنجراب، وادی نیلم سے مظفرآباد، 'چلاس سے شاہراہ قراقرم تک آباد اللہ تعالی کے یہ کروڑوں نائب ریاست کی آغوش میں تحفظ کے خواہاںہیں۔ پولیس، فوجی، عدالتی ہرکارے، جج، جنرل، وزیر، سیکرٹری، وکیل سب ہم وطن ہیں۔ انکے حقوق ایک سے ہیں ۔عام پاکستانی کروڑوں کے محصولات دیتے ہیں تب ریاست کے اعلیٰ ادنی افسروں سپاہیوں کی تنخواہیں اور مراعات کا اہتمام ہوتا ہے۔ انہیں غلام نہ سمجھا جائے۔ شفقت اور مامتا سےانکےدل جیتے جائیں۔ ریاست ماں جیسی ہونی چاہیے۔ رعونت اور تکبر، ماضی میں بھی ان کا بہت استعمال ہو چکا۔ اب کتنی رعونتیں اور کتنا تکبر منوں مٹی نیچے دبا ہوا ہے۔ کوئی ان متکبر حکمرانوں کو یاد بھی نہیں کرتا۔ یاد وہی آتے ہیں جو شفقت اور مامتا نچھاور کرتے رہے۔آخری آرام گاہوں پر نظر ڈال لیجئے دیکھ لیں کس کی برسی پر شہر ی کھنچے آتے ہیں اور کس کی برسی انکے اپنے بیٹوں کو بھی یاد نہیں رہتی۔ اب بھی شفقت اور مامتا سے ہی دل جیتے جا سکتے ہیں جو دل میں بس رہا ہو حکومت اسی کی ہوتی ہے۔

تازہ ترین