آج کی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ انسانی حقوق کی بدترین پائمالی ہے، کہیں عقائد کے مقدس نام پر، کہیں اپنے ناروا اقتدار واستبداد اور مفادات کو دوام بخشنے کیلئے، کہیں اپنی چوھدراہٹ کی دھاک بٹھانے کی خاطر ، لیکن تیزی سے بڑھتا انسانی شعور ہر لمحہ ان استبدادی طاقتوں کو چیلنج کر رہاہے10 دسمبر پوری دنیا میں ’’یونیورسل ہیومن رائٹس ڈے‘‘کی حیثیت سے منایا جاتا ہےکیونکہ اس روز 30 آرٹیکلز پر مشتمل یونیورسل ہیومن رائٹس چارٹر یا ڈیکلریشن کی منظوری دی گئی تھی 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر لیگ آف نیشنز کی جگہ جہاں 24 اکتوبر کو امریکی قیادت میں یواین او کی بنیاد رکھی گئی وہیں عالمی انسانی حقوق کے چارٹر یا دستور و منشور پر کام کا آغاز کر دیا گیا اس مقصد کے تحت ایک آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں اس وقت کی تقریباً تمام عالمی طاقتوں کے علاوہ لبنان سے بھی ایک نمائندہ لیا گیا اس کمیٹی کی سربراہی سابق امریکی صدر روزویلٹ کی شریک حیات ایلینور روزویلٹ نے کی۔ کمیٹی نے اپنا پہلا مسودہ ستمبر 1948 کو بمقام جنیوا پیش کیا جسکی منظوری 10 دسمبر 1948 کو پیرس میں دی گئی ۔یواین یونیورسل ہیومن رائٹس چارٹر کے متعلق ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ انسانی آگہی شعوری ترقی و سربلندی اور انسانی عظمت کی مظہر دستاویز ہے جسکی فکری بنیادیں قدیم یونانی تہذیب کے معماران و فلاسفرز کی شعوری بیداری و عرق ریزی پر ہی نہیں رومن سولائزیشن سے ہوتےہوئے ماڈرن ایرا کے عظیم فلاسفرز جان لاک، روسو، کانٹ اور رسل جیسے داناؤں کے انسان نواز فکری نکھار پر استوار ہیں ۔اسکی اٹھان 15 جون 1215ء کے برطانوی میگنا کارٹا میں ہے بلکہ اس سے بھی پہلے 1037ء میں جب برٹش کنگ نے پارلیمنٹ کی اتھارٹی مانتے ہوئے اسکے اختیارات پر سر تسلیم خم کر دیا تھا اسکے بعد ہی 1188ء میں حبیس کارپس کا اصول مانا گیا اور پھر 1679ء میں پارلیمنٹ نے ’’بل آف رائٹس‘‘ منظور کرتے ہوئے کنگڈم پر بندشیں لگائیں، اس کا کریڈٹ انقلاب فرانس کے ساتھ ساتھ امریکی آئین کے معماران کو بھی جاتا ہے جن میںجارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن، ابراہم لنکن اورروز ویلٹ نمایاں ہیں۔ مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی حقوق کا 30 دفعات پر مشتمل یہ چارٹر جدت و قدامت کا امتزاج اور انسانی شعوری و تہذیبی ارتقاء کا مظہر و عکاس ہے اور یہ ارتقاء جامد نہیں ہوا بلکہ وقت کے ساتھ جنیوا کنونشنز، مستقبل کے انسانی حقوق کی دستاویزات، اعلامیوں اور معاہدوں کے ذریعے ان میں نکھار آرہا ہے جو شعوری ارتقاء کے ساتھ آگے بڑھتا رہے گا درویش یہ کہہ سکتا ہے کہ آج کی ڈیموکریٹ لبرل سیکولر مہذب دنیا کا ایمان اگر ’’ہیومینٹی‘‘ اور اس کا ٹارگٹ عالمی امن، انسانی بہبود اور تعمیر و ترقی کے ذریعے عالمگیر ہیومن سوسائٹی یا برادری کا قیام ہے تو یونیورسل ہیومن رائٹس چارٹر اس کی اہم ترین دستاویز ہے جس کا نفاذ اور پھیلاؤ جس طرح یو این کی ممبر تمام ریاستوں کا اولین فریضہ ہے اسی طرح ان ریاستوں کے تمام اداروں اور شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ طے کیے گئے آدرشوں کی مطابقت میں اپنے اپنے معاشروں کو ڈھالنے کیلئے تگ و دو کریں اور اپنا حصہ ڈالیں ۔انسانیت کی راہ میں حائل ہونے والے جبر و دہشت اور قدامت پسندی کے اندھیروں سے تب تک لڑیں جب تک جیو اور جینے دو کے اصول کی شعوری روشنی سے دنیا منور نہیں ہوجاتی۔ اس کرۂ ارض کی یہ واحد دستاویز ہے یواین کے تحت جس کے 500 زبانوں میں تراجم کیے گئے ہیں اور ممبر ریاستوں کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے کہ وہ اسے اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بناتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کا بھرپور پھیلاؤ کریں ہر اہم مقام پر اس کی اشاعت کی جائے، جی چاہتا ہے کہ یہاں ہیومن رائٹس ڈیکلریشن کی ایک ایک شق کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے لیکن مختصر کالم میں یہ ممکن نہیں لہٰذا اپنے نونہالوں کو یہ مشورہ ہے کہ وہ اس کے دیپاچے سے لے کر ایک ایک آرٹیکل تک کی سٹڈی کریں اور یہ جائزہ لیں کہ آج 21ویں صدی کا ربع حصہ گزارنے کے بعد بھی بحیثیت قوم ہم لوگ کہاں کھڑے ہیں ؟یونیورسل چارٹر کی پہلی شق میں یہ کہا گیا کہ تمام انسان، حقوق اور عزت کے اعتبار سے برابر اور آزاد پیدا ہوئے ہیں انہیں ضمیر اور عقل عطا کی گئی ہے تاکہ وہ بھائی چارہ قائم کریں،آگے ہے کہ ہر شخص ان تمام حقوق اور آزادیوں کا حقدار ہے جو اس ڈیکلریشن میں بیان کی گئی ہیں بلا امتیاز رنگ، نسل، جنس، مذہب، زبان، سیاسی نظریہ، دولت یا خاندانی حیثیت، اس سے آگے بہت سی شقیں ایسی ہیں جو ہمارے روایتی سماج سے ٹکراتی ہیں۔ ہمارے میڈیا اور ہمارے سماج میں آخر اس امر کی اجازت کیوں نہیں کہ ہم ان تمام شقوں پر کھلے بندوں مباحثہ کر سکیں جبکہ دوسری طرف ہم نے پوری عالمی برادری کے سامنے اس عہد نامے پر دستخط کر رکھے ہیں کہ بحیثیت قوم و ریاست ہم اس ڈیکلریشن پر عمل درآمد کے پابند رہیں گے آج پوری دنیا کے دساتیر میں ہیومن رائٹس کا چیپٹر انہی آدرشوں کی پاسداری کا مظہر ہیں حتیٰ کہ ریاستی طور پر یہ طے ہے کہ بالفرض اگر آئین معطل بھی ہو جائے، مارشل لاء یا ایمرجنسی بھی لاگو ہو جائے پھر بھی بنیادی انسانی حقوق کی یہ شقیں لاگو رہیں گی اور سپریم جوڈیشری ان کی نگہبانی یا پہرےداری کرے گی بلاشبہ ہر قوم کی کچھ اپنی تہذیبی روایات، عقائد و ضوابط یا ترجیحات ہوتی ہیں لیکن یو این کے عالمی عہد نامے پر دستخط کرنے کے بعد ہم پابند ہیں کہ اپنے ضوابط کو عالمی چارٹر کی شقوں کے مطابق ڈھالیں نہ کہ ان کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈا اپنی قوم میں پھیلائیں۔