• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خبر کے مطابق جنوبی افریقہ نے برف کی چادر اوڑھ لی ہے اس کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں برف باری کی وجہ سے سردی میں خاصہ اضافہ ہو گیا ہے جبکہ روس جو اپنی سردی کی وجہ سے مشہور تھا ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے،یہی وجہ ہے کہ روسی ان دنوں آگ بگولا ہو رہے ہیں۔ادھر ہالینڈ میں گزشتہ اتوار کو ہالینڈ کی تاریخ کا دسمبر میں گرم ترین دن تھا ۔ـشدید بارشوں کے باعث آنیوالے بدترین سیلابوں سے جہاں ایک کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی بری طرح متاثر ہوئے تھے وہاں دنیا بھر میں ایسے افراد بھی کروڑوں کی تعداد میں ہے جو موسم کی خرابی خشک سالی، قحط اور سیلابوں کی آفتوں کا بُری طرح شکار ہو رہے ہیں اور انہیں اپنا گھر بار تک چھوڑنا پڑ رہا ہے میرے حساب سے ان دونوں انتہاؤں کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ ہے گلوبل وارمنگ۔ موسموں کا توازن بگڑ رہا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سمندروں کو خاص طور پر متاثر کر رہے ہیں اور ان کی سطح نمایاں طور پر بلند ہو رہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلی صدی کے آغاز تک کئی ساحلی شہر یا ملک دنیا کے نقشے سے غائب ہو جائیںگے جن میں خوبصورت جزیرہ مالدیپ سرفہرست ہے۔مالدیب کے علاوہ بھی کچھ ممالک ہیں جو موسمی تبدیلیوں کے باعث سطح سمندر میں اضافہ کی وجہ سے مالدیپ جیسی صورتحال کا سامناابھی سے کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا ڈوب جانا ہی ضروری نہیں بلکہ میکسیکو سے روس تک غذائی اجناس میں کمی سے بھوک کی صورتحال بدترین ہو رہی ہےسمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سےجو ممالک زیر آب آ رہے ہیں۔ان میں سے پہلے نمبر پر بنگلہ دیش ہے جہاں سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے 20 ملین لوگوں کے بے گھر ہونے کا ڈر ہے جسکی واحد وجہ موسمی تبدیلیاں ہیں۔پاپو انیو گینی، انڈونیشیا سے ملحقہ ایک ملک ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ دنیا کا پہلا جزیرہ ہوگا جو کہ موسمی تبدیلی کے باعث پورے کا پورا متاثر ہوگا ۔ تیسرے نمبر پر فلپائن ہے ۔ بار باڈوس کوبھی موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بقا کا خطرہ ہے۔ ہالینڈ کے ایک جریدے کی رپورٹ کے مطابق سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے زراعت و دیگر انفراسٹرکچر سمندر کی زد میں آ جائیگا ۔ پیسیفک آئی لینڈ میں زمین کے سب سے اونچے حصے پر بچھا جزیرہ کریپٹی اب سطح سمندر سے صرف دو میٹر اونچا رہ گیا ہے۔ آپ کو یہ بات سن کر حیرت ہوگی کہ سطح سمندر میں اضافہ ہونے کی وجہ سے جن ممالک کو خطرہ یا شدید خطرہ ہے ان میں مصر کا نام بھی شامل ہے ایک رپورٹ کے مطابق سطح سمندر میں تیزی سے اضافہ ہونے کی وجہ سے بازارِ مصر بھی بند ہوتا نظر آرہا ہے۔یہاں جزیرہ ٹوالو کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ جسکے بارے میں 2021 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ یہ جزیرہ اگلے 30 سے 50 برس میں مکمل طور پر غائب ہو جائیگا کہ اس کی بلندی سطح سمندر سے دو میٹر سے بھی کم دیکھی جا رہی ہے۔ سائنس دانوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں آنے والی قدرتی آفات کی ایک وجہ ’’خلائی سونامی‘‘کو بھی قرار دیا ہے۔ ہالینڈ کے ایک سائنسی میگزین میں یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 12 برس سے سورج غیر معمولی طور پر خاموش اور پُرسکون رہا لیکن 2020سے سورج پر ہونے والی ’’سرگرمیاں‘‘ تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔ گزشتہ سال اسی مہینے میں سورج پر دو بڑے دھماکوں کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔جسکے باعث بہت زیادہ توانائی خارج ہوئی۔سائنس دانوں کے مطابق توانائی کا دھارا زمین کی طرف آ رہا ہے جسکی وجہ سے روس میں اس کی پوری تاریخ کی سب سے زیادہ گرمی پڑی ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک سیلابوں کی زد میں ہیں ۔ بد قسمتی سے انسان نے دھرتی کے ماحول کو دو صدیوں میں اتنا بدل دیا ہے جتنا 20 ہزار سال میں نہیں بدلا گیا 1750 سے دنیا میں گرمی کا باعث بننے والی سب سے اہم گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں 26.3 اضافہ ہوا ہے اگر مذکورہ گیس کا موجودہ تناسب برقرار رہا تو زمین کے درجہ حرارت میں مزید 11 فارن ہیٹ اضافہ ہو جائیگا ۔ہالینڈ کے ایک ماہر کی رپورٹ کے مطابق 4 ہزار میل طویل عظیم دیوار چین کو بھی عالمی حدت میں اضافے سے خطرات کا سامنا کرنا پڑئیگا جبکہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ایشیا میں ایک ارب 30 کروڑ افریقہ میں 22 کروڑ اور لاطینی امریکہ میں آٹھ کروڑ افراد پانی کی کمیکے دباؤ کا شکار ہو سکتے ہیں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کام کرنیوالے سائنسدانوں کی تنظیم آئی پی سی سی نے طویل عرصہ پہلے یہ پیش گوئی کر دی تھی کہ عالمی درجہ حرارت کے باعث آنیوالے برسوں میں زیادہ روانی تسلسل اور شدت سے گرمی کی لہریں اور بارشیں ہونگی جس کیلئے ہمیں جنگلات میں اضافہ کرنا ہوگا لیکن 2013 میں’’سندھو یوم دریا‘‘ منانے والی قوم نے جنگلات کاٹ کر ڈھیر لگا دیے یہی وجہ ہے کہ سندھ سیلاب کی شدید زد میں ہے۔ جنگلات جو قدرت نے قائم کیے ہوئے water cycle کے معاون و مددگار تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 10ملین ایکڑ زمین سے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ ہم نے جنگلات کو فناکر دیا۔ ندیوں کو نالوں میں تبدیل کر دیا دریاؤں کو صحراؤں کا اور سمندروں کو آلودگی کا طوق پہنا دیا پھر ہم یہ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ قدرت ہمارے حال اور مستقبل کو سنوارتی سجاتی رہے گی ۔وہ وقت دور نہیں جب یہ ہم پر کاری وار کرئیگی۔ قدرت نے ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اگر انسان کے اصول ہیں تو قدرت کے بھی اپنے کچھ اصول ہیں جس سے وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹتی۔

تازہ ترین