• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ بھی ہو ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہتے جا رہے ہیں۔ ماضی کے بحران، المیے راستے میں آ کھڑے ہوتے ہیں ۔شاہراہیں گزشتہ سقوطوں، ناکامیوں، غلط فیصلوں کے ملبوں سے اٹی ہوئی ہیں۔ اس لیے پہلے مل جل کر ہمیں ملبہ ہٹانا ہے۔

آج اتوارہے۔اپنے بیٹے بیٹیوں، پوتے پوتیوں ،نواسے نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور تبادلہ خیال کا دن ۔ہماری اولادیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ ستاروں سے آگےجہاں اور بھی ہیں۔نوجوان بلوچستان کا ہو سندھ کا ،پنجاب یا جنوبی پنجاب کا، خیبر پختون خوا گلگت یا آزاد جموں کشمیر کا ،وہ نئے آفاق تسخیر کرنا چاہتا ہے۔

ان نوجوانوں کا پس منظر مختلف ہو سکتا ہے راستے الگ الگ ہو سکتے ہیں۔ لیکن سب کا ہدف آنے والا کل ہے ۔کوئی اپنی بلوچ صدیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ کسی کو پشتون صدیاں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آگے لے جا رہی ہیں۔کہیں سندھ کی صوفی صدیاں اجرک کے سائے میں لے کر چل رہی ہیں۔ پنجاب کی ہری بھری صدیاں آج کی نسل کو نئے ولولےدے رہی ہیں۔ کے پی کے میں تو امکانات سر اٹھا اٹھا کر سب کو یکجا کر رہے ہیں۔ آزاد جموں کشمیر کے نوجوانوں کی پیشرفت کی بنیاد تو ہے ہی غاصبوں کی مزاحمت۔ گلگت بلتستان میں بھی بلند و بالا چوٹیاں اور دشوار گزار گھاٹیاں نوجوانوں کو نیا عزم عطا کرتی ہیں۔ اگر ہم صدق دل سے غور کریں تو ان سب نوجوانوں کی منزل ایک ہی ہے۔ ایک پاکستانی صبح حسین جہاں فرد کی عزت ہوگی ایک فرد ایک ووٹ ۔جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ دنیا کے زیادہ تر حصے اب آقا اور غلام کے رشتے سے آزاد ہو چکے ہیں ۔آئی ایم ایف ،عالمی بینک اور دوسرے عالمی ادارےکسی نہ کسی طور غلامی کا دور واپس لانا چاہتے ہیں۔ لیکن چھوٹی قومیں اب بیدار ہو چکی ہیں۔۔پاکستان کیلئے آئی ایم ایف نے نئی قسط جاری کر دی ہے مگر شرائط بہت کڑی لگا دی ہیں۔ سرمایہ کاری باہر سے پوری طرح نہیں آرہی ہے۔ حالانکہ وزیراعظم کے غیر ملکی دورے بہت ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی شخصیتیں اسلام آباد کے دورے بھی کر رہی ہیں۔

واہگہ سے گوادر تک کے نوجوانوں کی منزل ایک ہی ہے اور یہی منزل دنیا بھر کے نوجوانوں کی بھی ہے۔ ہمارے نوجوان عالمی افق سے الگ نہیں ہیں۔ انٹرنیٹ نے انہیں اور قریب کر دیا ہے ۔ ماہرین معیشت یہ احساس دلا رہے ہیں کہ ہم مینوفیکچرنگ زیادہ کریں ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ ہم اپنی فی ایکڑ پیداوار بڑھا کر اناج کی اپنی ضرورتیں بھی پوری کریں اور یہ معیاری چاول، گندم، مکئی ،گنا ،کپاس برآمد بھی کریں۔ ان شعبوں میں جتنی پیشرفت ہو رہی ہو اس سے اپنے ہم وطنوں کو باخبر بھی رکھیں ۔ہر روز تنازعات ،گرفتاریوں، سزاؤں کی خبریں اخباری صفحات پر ،ٹی وی چینلوں پر چھائی رہتی ہیں۔ یا پھر یہ خبریں چلائی جاتی ہیں کہ اتنے نوجوان ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ہم بار بار یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں سے درخواست کرتے رہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے مختلف شعبوں کے اشاریوں پر معروضی رپورٹیں تیار کریں تاکہ قوم کو اندازہ ہو کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ہمیں دنیا کے برابر آنے کیلئے کن شعبوں میں زیادہ متحرک ہونا چاہیے ۔ترقی یافتہ ملکوں میں ریاستی ادارے قوم کو اعتماد میں لیتے ہیں اسی جذبے کی بدولت قوم ریاستی اداروں پر بھرپور اعتبار کرتی ہے۔

ایک درد مند پاکستانی اور ماہر نفسیات ڈاکٹرطارق سہیل نے اپنے عظیم والد جناب محمد سہیل کی یاد میں ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا اور پھر سہیل یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی جہاں میڈیکل کے ساتھ ساتھ سوشل سائنسز کی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔وہ پاکستان کی صورتحال پر بہت کڑھتے ہیں ۔جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ غریب ہم وطنوں کی معاشی خود مختاری کیلئے متفکر نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے ایک محقق اور معروضی تجزیہ کرنے والے اردو انگریزی میں بہت موثر تحقیقی مضامین لکھنے والے ڈاکٹر سید جعفر احمد جب کراچی یونیورسٹی کے شعبہ’’مطالعہ پاکستان‘‘ سے ریٹائر ہوئے تو فروری 2019 میں انہوں نے خوشخبری دی کہ ڈاکٹر طارق سہیل ایک ریسرچ ادارہ انسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ تشکیل دے رہے ہیں ،اس کے ڈائریکٹر وہ مقرر کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ اطمینان ہوا کہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی اس شعبے سے 18 سالہ وابستگی ایک تحقیقی ادارے کے مقاصد کی تکمیل کی ضمانت ہوگی۔ ایک روز میڈیکل ہسپتال کی عمارت میں جناب آئی اے رحمان، ڈاکٹر ہارون احمد ،تسنیم صدیقی،ڈاکٹر مبارک علی،عارف حسن،ڈاکٹر ایچ آر احمد، زاہدہ حنا،نائلہ محمود کے ساتھ مجھ جیسا کم علم بھی بیٹھا تھا۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی کتنی ہستیاں اپنی اپنی اننگز کھیل کر رخصت بھی ہو گئیں ۔اب ہم جب پانچ سال بعد بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں بیٹھے تھے تو ایک حسین اضافہ ڈاکٹر نورین مجاہد کا تھا جو ایک عظیم پاکستانی ڈاکٹر شریف المجاہد کی صاحبزادی ہیں۔وہ اپلائیڈ اکنامکس ریسرچ سینٹر یونیورسٹی کراچی کی ڈائریکٹر ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی نگرانی میں آئی ایچ ایس آر انتہائی اہم موضوعات پر 30 سے زیادہ تحقیقی کتابیں شائع کر چکا ہے۔ ساری توجہ تاریخ عوام پر ہے۔ پاکستان سے پہلے اور بعد میں جو بھی تحریکیں چلتی رہی ہیں سیاسی ادبی سماجی،ان کے سلسلے میں مسودات ،مکتوبات، مخطوطات جمع کر کے انہیں بہت موثر اور دیدہ زیب چھپائی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ معراج محمد خان، خان عبدالغفار خان، حیدر بخش جتوئی کی سیاسی جدوجہد پر انتہائی اہم حساس غیر مطبوعہ تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔سینئر صحافی اور حقوق انسانی کے علمبردار جناب حسین نقی سے ڈاکٹر سید جعفر احمد کا طویل انٹرویو’’جرات انکار‘‘کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے ۔ موسمیاتی تبدیلیوں ،تعلیم ،صحت پرسہ ماہی رپورٹیں باقاعدگی سے مرتب ہو رہی ہیں ۔ طمانیت یہ ہے کہ ڈاکٹر طارق سہیل کی آئندہ نسل بھی حرف کی حرمت اور دانش کی پذیرائی کیلئے وہی جذبہ رکھتی ہے۔

اچھی خبروں کو ترستے پاکستانیوں اور بالخصوص سندھ کے لوگوں کیلئے اچھی خبر کہ سندھ کے صحرائے تھر کے دلکش سفر کیلئے کراچی کینٹ اسٹیشن سے کھوکھرا پار زیروپوائنٹ تک سیاحتی ٹرین سروس دوبارہ شروع کی جا رہی ہے۔ حکومت سندھ کے جواں سال ،جواں عزم وزیر سیاحت ثقافت آثار قدیمہ سید ذوالفقار علی شاہ نے تھرڈ ڈیزرٹ سفاری کا دوبارہ اعلان کر دیا ہے۔ ہفتہ 20 دسمبر صبح نو بجے کراچی کینٹ اسٹیشن سے روانہ ہونے والی ٹرین شام پانچ بجے چھورپہنچے گی ۔مسافروں کی پذیرائی کیلئے تمام انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ اتوار 21 دسمبر کو ٹرین صبح سات بجے چھور سے کھوکھرا پار زیرو پوائنٹ کیلئے روانہ ہوگی ۔کھوکرا پار بھی واہگہ کی طرح بھارت کے ساتھ ایک سرحدی مقام ہے اور اس کا پاکستان کی تاریخ میں ایک حساس رتبہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد راجستھان اور دوسرے بھارتی علاقوں سے لٹے پٹے خاندان ٹرین کے ذریعے کھوکھرا پار ہی پہنچتے تھے جہاں اہل سندھ ان کا پرتپاک خیر مقدم کرتے تھے۔ تو یہ تھر ڈیزرٹ سفاری تفریح کی تفریح اور تاریخ کی تاریخ۔

تازہ ترین