• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے ظاہر ہے کہ وہ تجارت کو بہت سے مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مئی کی چار روزہ پاک بھارت جنگ کے دوران تجارت ہی کو جنگ بند کرانے کا ذریعہ بنایا جبکہ کئی اور ملکوں کی جنگیں بندکرانے یا ہونے سے قبل ہی رکواکر جانی ومالی نقصانات سے دنیا کو بچانے کے دعویدار ہیں۔کچھ عرصہ قبل آنیوالے انکے ایک بیان سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایک اور انڈیا پاکستان جنگ کواس کےشروع ہونے سے پہلے ہی رکوانے میںکردارادا کیاہے۔بہ قول انکے انہوں نے کم ازکم آٹھ جنگوں کی ہلاکتوں اور تباہیوں سے کرہ ارض کو بچانے کیلئے تجارت کو آلے کے طور پر استعمال کیا۔ وہ ایک سپر پاور کے سربراہ ہیں۔ اس حیثیت سے ان پریہ ذمہ داری عائد بھی ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو جنگ کی ہولناکیوں سے بچانے میں کردار ادا کریں اور انہوں نے یہ کردار نبھایا بھی ہے۔ اسی لئے پاکستان کی طرف سے نوبل امن انعام کیلئے ان کا نام دیا گیا تھا مگر فنی وجوہ ( شاید مقررہ وقت کے بعد تجویز آنے کے باعث یا کسی اور سبب سے) یہ تجاویز اور نامزدگیاں مطلوب نتائج نہیں دے سکیں۔ انکی مدت صدارت کے کئی برس ابھی باقی ہیں اور انکی امن کوششیں جاری رہیں تو کئی اعزازات کے ساتھ نوبل پیس تمغہ بھی انکے نام ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا جبکہ دنیا بھر، بالخصوص مشرق وسطیٰ کے ملکوں، کی یہ خواہش ہے کہ انہوں نے اسرائیل اور حماس کوامن سمجھوتے پر دستخط پر آمادہ کرکے جو بڑی کامیابی حاصل کی، وہ انکی اپنی نگرانی میں قائم انتظامیہ اور امن دستوں کی تعیناتی کے ذریعے عملاً پوری طرح نافذ نظرآئے اور اسرائیلی قیادت کو باور کرایا جائے کہ بس بہت ہوگیا ، آئے روز انسانی خون سے ہولی کھیلنے کاسلسلہ اب برداشت نہیں ہوگا۔

یہ تمہید اس لئے باندھی گئی کہ صدر ٹرمپ کا تجارت کو دوطرفہ فائدے کا ذریعہ بنانے کا تصور انکی انتظامیہ کی پالیسیوں اور بعض سفارتی بیانات سے بھی نمایاں ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں معاونت کے حوالے سے آنیوالا ایک سفارتی بیان اس کی خوبصورت مثال ہے۔ پاکستان کے معدنی ذخائر دولاکھ 30ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں جو امریکی جریدے ’’ فارن پالیسی‘‘ کے مطابق برطانیہ کے رقبے سے دوگنا ہیں۔ یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ، جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اب تک تقریباً40انتہائی قیمتی ذخائر دریافت ہوچکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ50سے ایک سوسال تک ملکی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ ان میں تیل ،گیس، سونا ،تانبا ، یورینیم، لوہے، کوئلے ، گرومائٹ، سیسے، جپسم، المونیم، سلیکون،سلفر اور پلوٹونیم وغیرہ کے ذخائر بھی شامل ہیں۔ سرکاری اعدادشمار کے مطابق سال 2024میں ملک میں اقتصادی ترقی کی شرح0.92رہی۔ اس میں کان کنی کی شرح نمو منفی4.6فیصد تھی جس کی وجوہ میں صوبے میں طویل عرصے سے جاری نظام کےعلاوہ کان کنی کے آلات ووسائل کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ ریکوڈک اور سیندک اپنے سونے اور تابنے کے ذخائر کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی سونے کے ذخائر موجود ہیں جنہیں درست طور پر نکالنے اور پراسیس کرنے میں غفلت کا احساس نمایاں ہے ،بالخصوص کے پی میں ٹھیکوں کے دینے میں بدعنوانی قومی احتساب بیورو کی رپورٹ سے ظاہر ہے اس باب میں تحقیقات کے احکامات بھی دئیے جاچکے ہیں۔ ریکوڈک میں سونے کے ذخائر بعض عاقبت نا اندیشیوں کے باعث نفع کی بجائے نقصانات بلکہ سزا کا ذریعہ بن گئے ان ذخائر کو بڑی مشکل اور کئی سال عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کے بعد کینیڈا کی کمپنی پیرک گولڈ کے ساتھ ازسرنو معاہدے کی صورت میں بچایا گیا۔

اس برس26مارچ2025ء کو تانبے اور سونے کے اس ذخیرے کو بروئے کار لانے کےحوالے سے آئل اینڈگیس ڈیویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ( اوجی ڈی سی) کی اسٹڈی رپورٹ سامنے آئی جسکے مطابق ریکوڈک کی کان کنی کا دومرحلوں کا حامل منصوبہ31برس پر محیط ہوگا۔ تخمینے کے مطابق اس سے13.1ملین ٹن تانبہ اور17.9ملین اونس سونا نکالا جائے گا جس کی مجموعی لاگت مارچ2025کے تخمینوں کے مطابق70ارب ڈالرہو گی اور اس سے2028ء میں پیداوار شروع ہوگی۔ اس مقصدکیلئے تین ارب ڈالر کا قرض لیا جائیگا جبکہ باقی رقم کی فراہمی شیئرہولڈرز کی ذمہ داری ہوگی ۔بیرک گولڈ کارپوریشن(50فیصد)، حکومت بلوچستان (25فیصد) جس میں وفاقی حکومت کی مدد بھی شامل ہوگی ۔ تین سرکاری کمپنیوں( اوجی ڈی سی ایل+پی پی ایل+جی ایچ پی ایل ) مشترکہ شیئر کے طور پر 25فیصد ادائیگی کی ذمہ دار ہیں۔ اس تفصیل کے بیان کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ابتدائی دوسال کے ترقیاتی اخراجات کی تخمینی لاگت چار اعشاریہ تین ارب ڈالر تھی جو مہنگائی سمیت کئی عوامل کے باعث ای سی سی نے مارچ2025میں چھ اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کردی تھی ۔ مذکورہ صورتحال کے تناظر میں ہر اس تعاون کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جو مطلوب رقم کا خلا پرکرنے میں معاون ہو۔ یوں بات ٹرمپ ڈپلومیسی کی طرف چلی جاتی ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے کی طرف سے خاتون ناظم الامور نتالی بیکر کے ویڈیو بیان کی صورت میں یہ اعلان سامنے آیا کہ امریکی ایگزم بینک نے ریکوڈک میں سرمایہ کاری کیلئے1.25ارب ڈالر کی منظوری دی ہے۔ ناظم الامور نے ریکوڈک منصوبے کو کانکنی کا ’’ماڈل پراجیکٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے جن خیالات کا اظہار کیا انہیں پاکستانی قوم قدر کی نگاہ سے دیکھتی اور بروقت قرض کی فراہمی کی تحسین کرتی ہے۔ امریکی ناظم الامور کےبیان کے بموجب ریکوڈک پراجیکٹ آنیوالے برسوں میں کئی حوالوں سے امریکہ اور پاکستان دونوں کی خوشحالی کیلئے سود مند ثابت ہوگا اور ’’ٹرمپ انتظامیہ نے ایسے ہی معاہدوں کو امریکی سفارت کاری کا حصہ بنایا ہے‘‘۔ پاکستانیوں کیلئے یہ امر خوشی کا باعث ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے، جو امن کا پرچم لے کر سرگرم نظر آرہی ہے، مذکورہ تعاون کو اپنی سفارتی پالیسی کا حصہ قرار دیا اور اس باب میں مزید تعاون کا عزم ظاہر کیا ۔ اس وقت، کہ پاکستان دہشت گردی کے فتنے سے نمٹنے کی جدوجہد میں مصروف ہے،خود امریکہ کو بھی نائن الیون کی صورت میں اس کی سنگینی کا بھرپور اندازہ ہے اور خطے کے ممالک بھی اس ضمن میں خدشات سے دوچار ہیں پاکستان سمیت پوری دنیا دہشت گردی کے خاتمے کیلئے امریکہ کے تعاون اور کردار کو زیادہ فعال وسرگرم دیکھنےکی متمنی ہے اچھا ہوکہ اس باب میں کثیر ملکی سطح پر ایک جامع پروگرام کے تحت دہشت گردی کا سدباب یقینی بنانے کی موثر حکمت عملیاں بروئے کار لائی جائیں۔

تازہ ترین