• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تاریخ کی گواہی ہے کہ 1947ء میں جب ہندوستان کو تقسیم کرنے کی باتیں ہورہی تھیں تو ہندوستان کے سب سے بڑے رہنما گاندھی نے قائد اعظم محمد علی جناح کو پیشکش کی کہ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم بن جائیں مگر قائد اعظم نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ اس سلسلے میں کچھ تاریخی ڈاکیومنٹس سے پتہ چلتا ہے کہ اس پیشکش کے بعد گاندھی اور قائد اعظم کے درمیان اس ایشو پر کچھ خطوط کا بھی تبادلہ ہوا۔ان ڈاکیومنٹس کے مطابق اس وقت کچھ اطلاعات یہ تھیں کہ ہندوستان کے دوسرے بڑے رہنما جواہر لعل نہرو نے اس تجویز پر انتہائی غصے میں ردعمل ظاہر کیا جبکہ گاندھی نے یہ تجویز اس وجہ سے دی کہ اس وقت ہندوستان کو تقسیم کرکے دو آزاد ملک بنانے کے بارے میں جو کوششیں کی گئی تھیں وہ ختم ہوجائیں اور ہندوستان اسی حیثیت میں قائم رہے۔اس وقت کئی تاریخ دانوں نے اس ایشو پر رائے ظاہر کی کہ نہرو اقتدار کے بھوکے تھے اور وہ ہر حالت میں ہندوستان کی تقسیم چاہتے تھے تاکہ ہندوستان میں وہ اقتدار میں آسکیں۔ان دستاویزمیں مزید بتایاگیا ہے کہ نہرو اور وی پی مینن نے الگ الگ وائسراے مائونٹ بیٹن کو اپنی آراسے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گاندھی نے کچھ عرصہ پہلے قائد اعظم کو ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی تھی مگر قائد اعظم نے اس وقت اس پیشکش کو منظور نہیں کیا۔اسی دوران وی پی مینن اور برطانوی حکومت کے ہندوستانی افسروں نے وائسرائے کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرائی کہ گاندھی کی طرف سے قائد اعظم کو دی گئی یہ پیشکش برطانوی حکومت اور وائسرائے کے لئے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ علاوہ ازیں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے کئی ممبران نے بھی گاندھی کی اس پیشکش کی توثیق نہیں کی۔مزید اطلاعات کے مطابق قائد اعظم کو ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی گاندھی کی پیشکش کی ناکامی کے کئی اسباب تھے اور اس کا فقط نہرو کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اپریل 1947 ء میں گاندھی نے راجکماری امرت کور کو کہا کہ وہ وائسرائے کے گارڈن کے پاس 9 بجے پیدل واک کرے گا۔ ہر ایکسیلنسی نے ان سے ملاقات کی اور اس کے بعد دونوں نے اکٹھے واک کی اور تبادلہ خیال بھی کرتے رہے‘ ہر ایکسیلنسی راجکماری کا کہنا تھا کہ بعد میں وہ باغ میں کرسیوں پر بیٹھے اور تبادلہ خیال کرنے لگے۔ راجکماری کے مطابق گاندھی جی ہندو مسلم عداوت کے بارے میں تفصیل سے اپنی آراسے مجھے آگاہ کرنے لگے مگر انہوں نے برطانوی سرکار کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی حکومت نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے نتیجے میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت والی کیفیت پیدا کردی ہے۔ گاندھی نے مزید کہا کہ پہلے والے حکمرانوں نے جو صورتحال پیدا کی تو اب میں چاہ رہا ہوں کہ اس صورتحال کو درست کیا جائے۔ آخر میں راجکماری نے کہا کہ گاندھی جی نے اس ایشو کو حل کرنے کے لئے مجھے مختصر تجویز دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس کو آگے بڑھائیں اور ساتھ ہی تجویز دی کہ فوری طور پر مسٹر جناح کو دعوت دی جائے کہ وہ مسلم لیگ کے رہنمائوں کے ساتھ مل کر ہندوستان میں درمیانی مدت کے لئے مرکزی حکومت وائسرائے کی قیادت میں بنائیں جس طرح اس وقت بھی ہندوستان میں اسی طرح کی درمیانی مدت کے لئے مرکزی حکومت نظم چلا رہی تھی۔ راجکماری نے کہا کہ جب یہ تجویز سامنے آئی تو میں لڑکھڑائی نہیں مگر میں نے گاندھی جی کو کہا کہ ’’آپ کی اس تجویز کے ردعمل میں جناح صاحب کا کیا موقف ہوگا‘‘۔ گاندھی کا جواب تھا کہ ’’اگر آپ اسے بتائیں گی کہ یہ تجویز میں سامنے لائی تھی تو وہ کہے گا کہ ’’گاندھی‘‘؟ اس مرحلے پر ہر ایکسیلنسی نے کہا کہ ’’میرے خیال میں جناح درست ہے‘‘۔ اس موقع پر اے ڈی ایس نے اطلاع دی کہ تبت مشن پہنچ گیاہے لہٰذا ہماری بات چیت دوسرے دن کے لئے ملتوی کردی گئی۔ہر ایکسیلنسی نے مزید بتایا کہ بہرحال انہوں نے گاندھی سے اجازت حاصل کی کہ میں اس ایشو پر پنڈت نہرو اور مولانا آزاد سے انتہائی رازداری سے تبادلہ خیال کروں‘ اسی دوران پہلی اپریل 1947 ء کو برما کے ریئر ایڈمرل وسکائونٹ مائونٹ بیٹن اور پنڈت نہرو کی ملاقات ہوئی جس میں ہر ایکسیلنسی نے گاندھی جی سے ملاقات کی تفصیل بتائی اور انہوں نے اتفاق کیا کہ مجھے اس مشن کو آگے بڑھانا چاہئے مگر پنڈت جواہر لعل نہرو نے گاندھی کی طرف سے پیش کئے جانے والے موقف پر تعجب کا اظہار نہیں کیا کیونکہ یہی حل گاندھی جی نے کیبنٹ مشن کو بھی پیش کیا تھا مگر انہوں نے اس کو ناقابل عمل قرار دیکر رد کردیاتھا۔ پنڈت نہرو اس بات پر پریشان تھے کہ گاندھی دہلی میں کچھ دن زیادہ رہیں جبکہ وہ چار ماہ تک دہلی سے دور تھے جسکے نتیجے میں وہ مرکز میں ہونے والے واقعات سے بے خبر تھے۔ راجکماری نے کہا کہ بعد میں انہوں نے اور نہرو نے پنجاب کی تقسیم اور عام انتخابات کرانے کے بارے میں غضنفر خان کی تجویز پر غور کیا۔

تازہ ترین