آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے بونڈائی ساحل پر یہودیوں کے خلاف ہونیوالی دہشت گردی میں ملوث انڈین شہری ساجد اکرم اور اس کے بیٹے نوید اکرم کے کسی دہشت گرد نیٹ ورک سے تعلقات کی تحقیقات ہورہی ہیں۔انڈین پولیس کے مطابق ساجد اکرم کا تعلق انڈین ریاست تلنگانا کے شہر حیدرآباد دکن سے تھا اور وہ ستائیس برس قبل اسٹڈی ویزے پر آسٹریلیا منتقل ہوا تھا۔ اتنے طویل عرصے
میں وہ محض چھ مرتبہ اپنے خاندان سے ملنے آیا حتیٰ کہ اپنے باپ کے مرنے پر بھی نہیں آیا اس لیے خاندان کو اس کے انتہا پسندانہ نظریات کا کوئی علم نہیں تھا۔ آسٹریلوی پرائم منسٹر انتھونی البانیز کا کہنا ہے کہ’’ ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیںجنکے مطابق دونوں باپ بیٹا داعش (آئی ایس آئی ایس) کے نظریات سے متاثر ہوکرانتہا پسند بنے ، ہم سڈنی میں یہود پر اس ٹیرراٹیک کو آسٹریلیا اور آسٹریلیا کی قومی یکجہتی پر حملہ سمجھتے ہیں اس لیے سڈنی سانحہ کے بعد آسٹریلیا میں یہود دشمنی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ٹاسک فورس قائم کردی گئی ہے۔‘‘ اسرائیل کی خصوصی سپورٹ ٹیم بھی سڈنی پہنچ گئی ہے۔ آسٹریلوی تحقیقاتی ذرائع کے مطابق دونوں انتہا پسندوں نے نومبر کا مہینہ فلپائن میں گزارا، جہاں انہوں نے عسکری تربیت حاصل کی تھی اس سلسلے میں وہ کن مقامات پر رہے ا س کی تفصیلات معلوم کی جارہی ہیں البتہ فلپائنی ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ساجد اکرم نے انڈین اور نوید اکرم نے آسٹریلوی پاسپورٹ پر یہ سفر کیا تھا۔ واضح رہے کہ 14دسمبر کی شام سڈنی کے بونڈائی بیچ پر ان دو نوں نے ہزار کے قریب یہود پر اس وقت فائرنگ شروع کردی جب وہ اپنے تہوارحنوکا کی تقریب میں مصروف تھے، اس حملے میں پندرہ یہودی مارے گئی اور بیالیس کے قریب زخمی ہوگئے۔ جب یہ حملہ جاری تھا عین اس وقت ایک شامی نژاد آسٹریلوی شہری احمد الاحمد نے اپنی جان پر کھیل کر ساجد اکرم نامی حملہ آور کو دبوچ لیا اور اس سے گن چھین لی اس دوران وہ نوید اکرم کی فائرنگ سے زخمی ہوگیا۔ تحقیقاتی حوالے سے یہ پہلو خوشگوار ہے کہ ایک ملزم نوید اکرم زندہ پکڑا گیا ہے اور وہ اب ہوش میں آچکا ہے جس سے اس کے تعلقات اور پلاننگ کی تفصیلات سامنے آجائیں گی۔ سڈنی کے بہادر عرب ہیرو احمد الاحمدبھی تیزی سے روبصحت ہیں جنکی پوری دنیا کے امن و سلامتی اور انسانیت پر یقین رکھنے والے لوگ تحسین کررہے ہیں۔ اس نڈرانسان نے عین موقع پر فوری فیصلہ کرتے ہوئے اپنے دوست سے کہا کہ میں اس دہشت گرد کو قابو کرتے ہوئےاگر مارا جاؤں تو میری بچیوں کا خیال رکھنا۔ اگر یہ جرأت مند انسان عین موقع پر ہمت نہ دکھاتا تو اندھا دھند فائرنگ سے اموات کئی گنا بڑھ سکتی تھیں۔ آج پاکستان میں بھی احمد الاحمد کی بہادری کے گیت گائے جارہے ہیں اس پس منظر میں درویش کی حکومتِ پاکستان کو تجویز ہے کہ اس سچےکھرے بہادر انسان کی عزت افزائی کو ایک مثال بناتے ہوئے اس کیلئے نشانِ پاکستان کا اعلان کیاجائے۔ اس سے پاکستان کا سافٹ امیج پوری دنیا میں اُجاگر ہوگا۔ جس طرح آسٹریلوی پرائم منسٹر نے اس قومی ہیرو سے ملاقات کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی ہے دیگر مسلم حکومتوں کو بھی اسے آئیڈیالائیز کرنا چاہیے تاکہ ہمارے اوپر وارد ہونے والا یہ تاثر ٹوٹے کہ ہم دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔آسٹریلیاکے واقعے پر بھی دنیا نے ابتداً یہی سمجھا کہ ان دہشت گردوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی اور انڈین میڈیا میں ایک نوع کی سرد جنگ شروع ہوگئی جس کی کسی طرح بھی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ ٹھیک ہے وہ گمراہ پاکستانی نہیں تھا مگر مسلمان تو تھا۔انڈین مسلمان تو پہلے ہی اس حوالے سے رگیدے جارہے ہیں اب جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس حملہ آور کی روٹس انڈین حیدرآباد دکن کے مسلمان گھرانے سے ہیں تو یہ انڈین مسلمانوں کے لیے مزید مسائل کا باعث بنے گا۔ انڈین حکومت اپنی مسلم کمیونٹی کےخلاف مزید اقدامات اٹھائےگی۔ دوسری جانب کیا ہم اس امر سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہماری صفوں میں ایسے عناصرموجود نہیں؟؟ آج ہمیں اپنی مغربی سرحدوں پر جو طالبانی فتنہ درپیش ہے اس کے کرم فرما کون تھے؟جب اپنی بات آتی ہے تو ہم یہ استدلال کرتے نہیں تھکتے کہ کسی بھی قوم کے اگر کچھ لوگ گمراہ ہوجائیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پوری قوم کو رگیدا جائے، ہم فخر سے کہتے ہیں کہ اگر دہشت گردی کی واردات کرنے والے مسلمان تھے تو انہیں دبوچنے والا بھی تو ایک شامی مسلمان ہی تھا لہٰذا کسی بھی قوم کو بحیثیت مجموعی مطعون نہیں کیاجاسکتا، ہر قوم میں جہاں برے لوگ ہوتے ہیں وہاں انسانیت پر ایمان رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ غزہ پر حملوں کے خلاف خوداسرائیل کے اندر سےبھی آوازیں اٹھی تھیں؟۔ انڈیا میں اگر کسی مسلمان سے زیادتی ہوتی ہے توہندو کمیونٹی بھی ان کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے نونہالوں کو یہ ذہن نشین کروائیں کہ جتنی جلدی ہوسکے وہ منافرت سے چھٹکارا پالیں، اس اپروچ کی وجہ سے پوری مہذب دنیا میں ہمارے لوگوںکیلئے مشکلات بڑھیں گی اور دروازے بند ہونے لگیں گے۔ تمام انسانوں سے محبت کرنا ہی انسانیت ہے۔