مرنے کے بعد بھی انکی کیا شان ہے۔ جیتے کس اہتمام سے ہوں گے۔ بعد از مرگ تو ان کی شوکت ان کے دور کی نقش سازی سنگ تراشی ہمارے سامنے ہے اور یہ ہمیں ان کے عہد کے بارے میں جاننے کی امنگ بھی پیدا کر رہے ہیں۔ خوش بخت ہیں وہ درد مند پاکستانی حکومت سندھ کے افسر جو اپنی نگہبانی پاسبانی کی ذمہ داریاں دل اور دماغ سے نبھا رہے ہیں۔ ہم اس لمحے سندھ سیاحتی ترقیاتی کارپوریشن کےشٹل میں مکلی کے 9 ایکڑ سے زیادہ وسیع و عریض شہر خموشاں میں محرابوں دریچوں گنبدوں جھروکوں میں کھوئے ہوئے ہیں ہم جو عہد حاضر کی ابتلاؤں اور خوشیوں کو قلم بند کرنے کے دعویدار ہیں اس وقت گزری صدیوں کو سانس لیتے دیکھ رہے ہیں۔ طبقاتی معاشرہ تو ہمیشہ سے انسانوں کو خانوں میں بانٹتا رہا ہے۔ مرنے کے بعد بھی یہ امتیاز اور تقسیم جاری رہتی ہے۔ مگر وہ مٹی جسے اوڑھ کر ہمارے وجود ابدی نیند سوتے ہیں۔ اس کی خوشبو اؤیک سی ہے۔ زرد رنگ نارنجی مائل حاوی رہتا ہے۔ ایسی ایسی بنت کہ پتھر بھی بولنے لگتے ہیں۔ فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم کتنی عظیم سرزمین کے فرزند ہیں۔ یہ علم و دانش سے کتنی مالا مال ہے۔ سندھ کا صوبہ اور زیادہ وسعتیں رکھتا ہے یہ قبریں مقبرے آخری آرام گاہیں نہیں یہ خزانے ہیں ،امیر و کبیر ثقافتیں ہیں، متنوع تمدن رنگا رنگ تہذیبیں۔ یہ لوگ بہت زیادہ وقار سے زندہ رہنے کے سلیقے چھوڑ گئے ہیں، سمہ ارغون ترخوان اور مغلیہ ادوار ۔شاہ تھے حاکم تھے گورنر والی اور ان کے اہلکار۔ مکلی قبرستان کے نگہبان سید غیور عباس کیوریٹر ہیں۔ کئی سو ایکڑ پر چھوٹی بڑی قبروں مقبروں کے امین ہیں۔ یونیسکو نے اس قبرستان کو انسانی ورثہ قرار دیا ہے۔ اس کے تحفظ تزئین آرائش کیلئے غیر ملکی فنڈنگ بھی میسر آتی ہے۔ صوبائی محکمہ آثار قدیمہ بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتا ہے پہلے یہ شعبہ وفاق کے پاس چلا گیا تھا۔ مرکز اپنی مضبوطی کیلئے صوبوں کو کمزور کرتا ہے۔ نحیف صوبے بھی طاقتور مرکز کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ سندھ کی آغوش میں آنکھ کھولنے والے جس صدر نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے سیاحت سمیت تمام شعبے واپس صوبوں کو دلوائے اب اسی صدر کے دور میں ایسی ایسی آئینی ترامیم ہو رہی ہیں کہ 18ویں ترمیم صوبائی خود مختاری کے فیڈر کو خالی ہوتا دیکھ رہی ہے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعدبھنبھورکے کھنڈرات میں بھی جینے کی امنگ پیدا ہوئی ہے۔ دوبارہ کھدائی شروع ہو گئی ہے۔ اس کئی مربع میل پر پھیلی بندرگاہ دیبل کے آثار بتا رہے ہیں کہ قبل از مسیح پہلی صدی سے لے کر تیرہویں صدی عیسوی تک ان رقبوں نے کتنی قوموں کی بصیرت دیکھی۔ کتنے حملہ آوروں کی نقشہ بندی کا مشاہدہ کیا۔ 854 عیسوی کی ایک جامع مسجد کا فرش بھی پائیدار ہو گیا ہے۔ یہ خود رو گھاس جو اپنے نیچے ہزاروں سال کے برتن، گلی کوچے، مندر، مسجدیں، کلیسا، بازار چھپائے ہوئےہے۔ مجھے 21ویں صدی کی تیسری دہائی سے سینکڑوں سال پیچھے لے گئی ہے۔ کشتیاں لنگر انداز ہوتی سنائی دے رہی ہیں۔ تلواروں کی چمک نظر آرہی ہے ۔ ساتھ ہی ڈیلٹا ہیں۔ کھارے پانی کی کھاڑیاں ۔کھارے اور میٹھے پانی میں کشمکش صدیوں سے جاری ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا نائب انسان فطرت سے قرب بھی حاصل کرتا رہا ہے اور کبھی کبھی جنگ پر آمادہ بھی ،پھر جیتے جاگتے انسان ہنستے بستے شہر کھنڈر بنتے رہے ہیں۔ جن سامراجیوں نے انہیں خرابوں میں تبدیل کیا ۔وہی ان کے آثار کے تحفظ کیلئے فنڈز دیتے ہیں۔ ماضی میں زندگی کی رمق ڈھونڈتے ہیں اور آج جہاں جہاں زندگی کی جھلک ہے وہاں بمباری کرتے ہیں۔ عوام کی مرضی کے خلاف حکمران مسلط کرتے ہیں۔ بھنبھور نے اس برصغیر کی سماجی حیثیت بدل دی تھی۔ ڈاکٹر ایف اے خان یاد آتے ہیں ۔کتنی تحقیق انہوں نے کی اور اب ڈاکٹر زاہدہ قادری اسی نیک مشن پر مامور ہیں۔ بہت جذبہ اور اشتیاق رکھتی ہیں۔ سوشل میڈیا نے نئی نسل کو حال کی بوالعجبیوں میں اتنا الجھا دیا ہے کہ نئے انسان اب اپنی بنیادوں میں جھانکنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ بھنبھور ہمیں جانے تو نہیں دے رہا ہے۔ جواں سال سلیم سب قلم کاروں کو بہت خلوص سے یہاں گزرتی صدیوں کی جھلک دکھا رہے ہیں۔ دور تک پھیلے خرابے ڈیلٹا درخت پگ ڈنڈیاں سرگوشی کرتے ہیں احتیاط سے چلیں آپ جیسے لوگ ہی یہاں رہتے تھے بہت مہذب ملنسار تنگ دست مگر تنگ دل نہیں۔
آپ بھی وقت نکالیں بھنبھورآپ کی میزبانی کیلئے بے تاب ہے۔ اورنگی کے ایک پرائمری اسکول کے بچے سفید شلوار قمیض، سفید ٹوپیوں اور پگڑیوں میں ہنستے مسکراتے جائزہ لے رہے ہیں۔ ان کے معزز اساتذہ بھی ان کے ساتھ ہیں۔ کراچی کے اور اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کو بھی یہاں آنا چاہیے۔ کراچی پورٹ قاسم گوادر پسنی آج کی بندرگاہیں ہیں بھنبھور تیرہویں صدی تک یہی خدمات انجام دیتا رہا ہے۔ ہمارے اس قافلے میں ناول نگار خواتین بھی ہیں کالم نویس بھی، وی لاگرز بھی۔ خوشی کی بات ہے کہ ٹیکنالوجی انٹرنیٹ ساتھ دے رہا ہے۔ شاہجہانی مسجد ٹھٹھہ اپنے وقار اور شکوہ کے ساتھ ہمیں اپنی آغوش میں لے رہی ہے۔ تزئین و آرائش اب بھی جاری ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے اسلم صاحب ہمیں تازہ ترین معلومات دے رہے ہیں۔ کس دور میں کیا ہوا ؟ شہید ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار آئے تو انہوں نے اس مسجد کی شوکت کی بحالی میں بہت دلچسپی لی۔ اس قلم قافلے کی آخری منزل کینجھر جھیل ہے۔ وی لاگرز کا اشتیاق یہ ہے کہ جب سورج غروب ہو رہا ہو ہم وہاں موجود ہوں۔ شکریہ 17 دسمبر کے سورج کا کہ اس نے ہمارا انتظار کیا۔ جھیل پر ڈوبنے سے پہلے سورج نے کتنے رنگ بدلے یہ سب کچھ محفوظ ہو رہا ہے حرف میں بھی اور عکس میں بھی۔ کینجھر جھیل کے مہمان خانے میزبانی کے خلوص سے سرشار ہیں۔ مخدوم گلزار ہر مہمان کا خیال رکھ رہے ہیں سندھ سیاحتی ترقیاتی کارپوریشن کے بجرے میں ڈوبتے سورج کے ساتھ جھیل کے کچھ راؤنڈ بھی۔ پاک سرزمین شاد باد ’’سندھ کے جام پیو کھل کے جیو رات کو رات کہو کھل کے جیو ‘‘میں اپنی نظم پیش کر رہا ہوں کینجھر کی لہریں بھی داد دے رہی ہیں۔ بھنبھورمکلی جاتے ہوئے پختہ اور دوستی نبھاتی سڑکیں ملیں مگر ادھر کراچی میں کتب میلے میں گلشن اقبال کی حدود کے اندر ہی ایکسپو سینٹر تک جانا جو ئےشیر لانے کے مترادف لگ رہا ہے۔ کتاب میلہ تو اسی طرح با رونق ہے۔ حوصلہ افزا بچے بچیاں، بزرگ نوجوان، دینی مدارس والے، اسکولوں یونیورسٹیوں والے، اساتذہ کرام کتابوں کے بنڈل اٹھائے نظر آرہے ہیں۔ کتاب زندہ ہے، کتاب خوش ہے، کتاب مسکرا رہی ہے، کتاب اب بھی ہمارے مسئلے حل کر رہی ہے۔ سال کے سال کتب میلے میں ملنے والے پہلے دن بھی ملے ہیں اور دوسرے دن بھی۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں ،نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں سے ملنے اور تبادلہ خیال کا دن۔ کیا ہی اچھا رہے کہ آج اگر آپ ایکسپو میں آئیں۔ دوپہر کا کھانا بھی وہیں بچوں کے ساتھ کھائیں کتابوں پر باتیں کریں کتابوں سے باتیں کریں۔ انتظار رہے گا۔