یہ پنجابی جملے ’’تینوں سدھا کرناں‘‘ (تمہیں سیدھا کرتا ہوں)، ’’تینوں عقل دنّاں‘‘ (تجھے میں عقل دیتا ہوں)، ’’تیرا دماغ ٹھیک کرناں‘‘ (تمہارا دماغ درست کرتا ہوں)، ’’تینوں راہے پاناں‘‘ (تجھے میں سیدھا راستہ دکھاتا ہوں) اور ’’تینوں سبق سکھاؤناں‘‘ (تجھے سبق سکھاتا ہوں) ہم روز مرّہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ آپ ذرا غور کریں کہ ان جملوں میں ایک کہنے والا اور ایک وہ ہے جو کہنے والے کا مخاطب ہے اور وہ دوسرا ہے۔ ان جملوں میں ’’تینوں‘‘ دوسرے کردار کے طور پر اُبھرتا ہے جس کو پہلے والا کردار پرِکاہ جیسی اہمیت بھی نہیں دیتا اور وہ اسے سب کچھ سکھانا چاہتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اس میں ہم سب پہلے والا کردار ہیں جو کسی ’’دوسرے‘‘ کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس کو کچھ نہ کچھ سکھانے کے چکر میں رہتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ہم سب گھر سے کسی ’’دوسرے‘‘ کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ آپ کسی سے یونہی کہیں یار کل میں نے فلاں جگہ سے کیلے خریدے۔ یار وہ اندر سے کالے نکلے۔ پھر دیکھیں، آپ فوراً اس کیلئے دوسرا کردار بن چکے ہوں گے۔ اس نے اپنی زندگی بھر کی کیلےکی خریداری کا نچوڑ آپ کے سامنے لے آنا ہے، اب آپ اس کی کیلا خریداری پر مبنی بصیرت افروز گفتگو سے اپنے جگ پتیلیاں یا بالٹیاں بھر لیں۔ وہ یہاں تک بتا دے گا کہ آپ نمازِ فجر کے بعد گلی کے کسی کونے یا نکڑ پر کھڑی ریڑھی کا رُخ کریں جس پر ریڑھی بان ابھی کیلے سجا رہا ہو۔ آپ کے سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح ہونی چاہیے۔ کیلے خریدنے اکیلے کبھی نہ جائیں، اپنے چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ آپ سب سے پہلے کیلوں کی ریڑھی پر پھونک ماریں۔ ریڑھی بان کے رزق کی برکت کیلئےدعا کریں۔ بچوں سے کہیں چچا کو سلام کرو۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک درجن کے آپ پیسے دیں گے جو آپ کی بوہنی کی وجہ سے آپ کو منڈی کی قیمت پر پڑیں گے اور آدھی درجن آپ کے بچوں کو چچا ریڑھی بان کی طرف سے مُفت مل جائیں گے۔ آپ کسی شخص سے صرف اتنا کہہ دیں کہ یار کل دوپہر کے بعد مجھے سر میں شدید درد ہو گیا تھا۔ آپ یہاں بھی فوراً دوسرے شخص کا کردار بن جائیں گے۔ وہ شخص اپنے پڑدادا کا حوالہ دے کر آپ کو بتائے گا کہ دوپہر کے بعد درد کا علاج اس گائے کے دودھ میں ہے جو کنوئیں کا پانی پیتی ہو اور صرف شٹالہ کھاتی ہو۔ آپ کسی شخص سے اتنا کہہ دیں کہ یار میری موٹر سائیکل پٹرول بہت کھا رہی ہے۔ اس شخص نے سب سے پہلے تو یہ کہنا ہے کہ جب آپ اس کمپنی کی موٹر بائیک خرید رہے تھے، اس وقت آپ کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی تھی۔ اب وہ شخص آپ کو کاربوریٹر کے ’’اندر پیٹے‘‘ سے آگاہ کرتا ہوا اسے کھُلوانے اور انجن کی گہرائی میں موجود خطا کے ایک پُتلے پُرزے کو اس کا ذمہ دار قرار دے گا اور آپ کو بلال گنج کی بھُول بھلیوں میں موجود کسی مقامِ تاریک میں واقع مُنتشر چلتے پُرزوں کے ڈھیر کا پتا بتائے گا کسی روز اگر اپنے گھر کے فرنیچر کی ایک کرسی جس کی ایک ٹانگ کو دیمک کھا چکی ہو،آپ اسے اٹھا کر کسی فرنیچر والے کے پاس مرمت کے لیے جا رہے ہوں ، راستے میں کوئی جاننے والا مل جائے اور استفسار کرے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ آپ صرف اتنا کہیں کہ یار! اس کرسی کو میں مرمت کرانے کیلئے جا رہا ہوں۔ آپ کے دوست کو دوسرا کردار راہ چلتے مل گیا۔ اس نے پورے پنجاب کے علاقوں میں اُگی ہوئی ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں ٹاہلیوں کا تذکرہ شروع کر دینا ہے اور آپ کو وہ شخص چند لمحوں میں باور کرا دے گا کہ آپ کی آنکھیں تو ہیں لیکن کرسی خریدتے ہوئے انھیں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ آپ کی کرسی کے انتخاب پر نفرین بھرے چند حرف بھی بھیج دے گا۔ پھر وہ آپ کی پریشانی کے حل کیلئےکسی آرا مشین پر متعین کرسی اسپیشلسٹ بابے نورے کے چرن چھونے کا مشورہ دے گا۔ پورے معاشرے میں صورتِ حال یہ ہے کہ ہم دوسرے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایک کا مؤقف ہے کہ وہ زیادہ سردوگرم چشیدہ اور جہاں دیدہ ہے۔ اگر پہلے والا کردار یہ کہہ دے کہ غصّہ اچھی چیز نہیں، تلخی، تلخ مزاجی اور کڑواہٹ سے گریز کریں، شکر کولا اور انار کا جوس ان کڑواہٹوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ آپ کسی سے یہ کہیں کہ آپ پچیس تیس سال پہلے کے حالات کا موازنہ آج کے دور سے کر لیجیے۔ ہم پہلے سے زیادہ اچھے حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ پہلے لوگ بیٹھ کر گھنٹوں موٹر سائیکل کی سواری کے بارے میں سوچا کرتے تھے کہ کاش موٹر سائیکل خرید سکیں۔ اب رات کو ہونڈا 70 موٹر سائیکلیں جگنوؤں کی طرح جگمگاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کسی زمانے میں ریفریجریٹر اور اے سی امارت کی نشانیاں تھیں۔ اب یہ چیزیں بھی عام لوگوں کی دسترس میں ہیں۔ اللّٰہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ لوگوں کی نظر میں غریب ترین ملک نے ایٹمی کھڑاک کر دیا لیکن گھاس بھی نہیں کھائی۔ پاکستانی لوگ بہت ہی اچھے ہیں، انتہائی محنتی اور با اخلاق ہیں۔ جس ملک کے چپے چپے پر مسجدیں ہوں، اذانیں اور نمازیں ہو رہی ہوں وہاں کسی دوسرے سے کہا جائے کہ آؤ، تمہیں میں اسلام کی الف ب سمجھاؤں تو دوسرا آسانی سے کہہ دے گا۔ پاکستان تو اسلام میں پہلے ہی کروڑوں اربوں بار پی ایچ ڈی ہے۔ اللّٰہ کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے کہ ہم پاکستان جیسے عظیم ملک ،جو ایک جنت سے کم نہیں ،میں رہتے ہیں۔ آپس میں پیار محبت، صلح جوئی، بُردباری اور وطن کی خیر خواہی ہی ہمارا ماٹو ہونا چاہئے۔