• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سڈنی آسٹریلیا کے بونڈائی بیچ پر حالیہ دہشت گرد واقعے نے ایک بار پھر دنیا بھر میں پھیلتے مذہبی تعصب، انتہا پسندی اور شناختی سیاست کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ محض ایک مقامی سانحہ نہیں بلکہ ایک ایسا واقعہ ہے جسکی وجہ سے مغربی دنیا میں مسلمانوں کو اجتماعی طور پر شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے بعض مواقع پر کچھ عاقبت نا اندیش مسلمان دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایسے اقدام کر گزرتے ہیں، یا ان سے کروا لیے جاتے ہیں جسکا فائدہ اسلام دشمن انتہا پسند اور کٹر قوم پرست عناصر اٹھاتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں حالیہ برسوں کے دوران قوم پرستی اور دائیں بازو کے نظریات کو غیر معمولی تقویت ملی ہے۔ دہشت گردی کے کسی بھی واقعے کے بعد پورا زور اس بات پر لگا دیا جاتا ہے کہ حملہ آور کی مذہبی یا نسلی شناخت کیا تھی۔ اگر مجرم مسلمان ہو تو پورے مذہب کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، اور اگر وہ سفید فام یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو تو معاملے کو فردِ واحد کی ذہنی بیماری یا ذاتی مسئلہ قرار دے کر ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہی دوہرا معیار پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تعصب کا ایک عملی نتیجہ امیگریشن اور سفری پالیسیوں کی سختی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں مسلم ممالک سے آنیوالوں، خواہ وہ طالب علم ہوں، ورکر ہوں یا سیاح، کیلئے ویزا کے حصول کو مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔ آسٹریلیا، جو ماضی میں پاکستانی طلبہ اور ڈاکٹروں کیلئے نسبتاً آسان اور پرکشش ملک سمجھا جاتا تھا، حالیہ واقعے کے بعد اب وہاں جانا بھی دشوار ہو جائیگا۔ سڈنی بونڈائی بیچ کے واقعے میں شامی نژاد مسلمان احمد الاحمد کا کردار قابل ستائش اور امن پسندی و انسان دوستی کی روشن مثال ہے۔ احمد نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی اور گولیوں سے چھلنی ہو کر ثابت کیا کہ مسلمان دہشت گردی کے حامی نہیں بلکہ امن پسند اور متاثرہ فریق ہیں۔ یہ عمل قرآنِ کریم کی اس تعلیم کی عملی تصویر ہے کہ ’’جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی‘‘ (سورۃ المائدہ: 32)۔ امریکہ کی ریاست رہوڈ آئی لینڈ میں واقع براؤن یونیورسٹی میں ایک پرتگالی نژاد امریکی حملہ آور نے فائرنگ کر کے دو طالب علموں محمد عزیز عمرزوکوؤ اور ایلا کک کو قتل اور نو طلبہ و طالبات کو شدید زخمی کرنے کے بعد ایک پروفیسر کو قتل کر کے خودکشی کر لی ۔امریکہ میں ہر سال تقریباً پانچ سو کے قریب ماس شوٹنگ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ امسال امریکہ کے تعلیمی اداروں میں ابتک 75 سے زائد خونیںحملے ہو چکے ہیں۔ ان واقعات میں ملوث افراد کی اکثریت سفید فام ہوتی ہے، مگر اسکے باوجود کسی مذہب یا قوم

ؤکومجموعی طور پر موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاتا۔اس پس منظر میں بھارت کا کردار بھی خاص توجہ کا طالب ہے۔ ایک طرف بھارت مشرقِ وسطیٰ ، سینٹرل ایشیا اور ؤافریقہ کے مسلمان ممالک کے ساتھ معاشی اور سفارتی تعلقات مضبوط کر رہا ہے، تو دوسری طرف عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈے میں پیش پیش ہے۔ یہ دوہرا رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی سیاست میں اصول نہیں بلکہ بغض اور مفادات کارفرما ہیں۔ بھارت کے اندر حالات یہ ہیں کہ وہاں بسنےوالے مسلمانوںکے تمام اختیارات اور حقوق ریاست نے چھین لیے ہیں اور انہیں اپنے تحفظ اور سروائیول کیلئے ہر وقت ہر جگہ اپنی وفاداری ثابت کرنا پڑتی ہے۔پاکستان خود گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بیگناہ شہریوں کے ساتھ ساتھ فوج، فرنٹیئر کور اور پولیس کے جوانوں نے اپنے خون سے بنیاد پرستی کے خلاف دیوار کھڑی کی۔ گیارہ سال قبل آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والا بہیمانہ حملہ اس جدوجہد کی سب سے دردناک مثال ہے۔ یہ حقائق اس دعوے کی نفی کیلئے کافی ہیں کہ سبھی مسلمان یا اسلامی ممالک دہشت گردی کے حامی ہیں۔ آج دنیا بھر کے پُرامن مسلمان ایک دوہرے محاصرے میں ہیں۔ ایک طرف انہیں مسلم انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا سامنا ہے تو دوسری طرف غیر مسلم معاشروں میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی، اسلاموفوبیا اور نسلی تعصب ان کیلئے زندگی کو مشکل بنا رہا ہے۔ ایسے میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور دیگر مسلمانوںکیلئے ضروری ہے کہ وہ مقامی قوانین، رسم و رواج اور اوپن سوسائٹی کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے انتہائی احتیاط اور توازن کے ساتھ زندگی گزاریں ، اسلامی ممالک میں تشدد،انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ، جذباتی ردِعمل اور غیر ذمہ دارانہ رویہ نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ افریقہ اور دیگر ممالک سے برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں آنےوالے غیر قانونی تارکین وطن جن کی اکثریت مسلمان ہے، ان کی غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی حرکات کی وجہ سے ان ممالک میں کئی نسلوں سے بسنے والی مسلمان اور دوسری امیگرینٹ کمیونٹیز مقامی لوگوں کی نفرت کا نشانہ بن رہی ہیں۔یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، قوم یا رنگ نہیں ہوتا۔ یہ ایک عالمی عفریت ہے جو جہاں بھی موقع ملے، انسانیت کو نگل لیتاہے۔ اس کا مقابلہ انصاف، تعلیم، سماجی شمولیت ، بین المذاہب ہم آہنگی اور متوازن بیانیے سے کیا جا سکتا ہے۔ جب تک کسی ایک کمیونٹی یا مذہب کے پیروکاروں کو مستقل طور پر کٹہرے میں کھڑا رکھا جائےگا، نفرت کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ دنیا کو یہ سمجھنا ہو گاکہ مسلمان مسئلہ نہیں بلکہ خود اس مسئلے کا سب سے بڑا شکار ہیں۔ سڈنی کے بونڈائی بیچ پر جان قربان کرنیوالا احمد ہو، براؤن یونیورسٹی میں جان سے جانےوالا طالب علم محمد عزیز ہو یا پاکستان کے بازاروں، مساجد اور اسکولوں میں شہید ہونےوالے بیگناہ شہری، یہ سب ایک ہی کہانی کے کردار اور چنگیزیت کا شکار ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ امن کا راستہ تقسیم سے نہیں بلکہ باہمی اعتماد و احترام اور افہام وتفہیم سے نکلتا ہے۔ اگر دنیا بھر کے ممالک واقعی محفوظ مستقبل چاہتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے، مورد الزام ٹھہرانے اور انتقام کا نشانہ بنانے کے بجائے شراکت اور رواداری کی اقدار اپنانا ہوں گی کہ انسانیت میں بہت کچھ مشترک ہے۔

( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین