نیوزی لینڈ کے وزیرِ خارجہ ونسٹن پیٹرز نے بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان نئے آزاد تجارتی معاہدے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے ’نہ آزاد اور نہ ہی منصفانہ‘ قرار دیا ہے۔
ونسٹن پیٹرز نے کہا ہے کہ ان کی جماعت، نیوزی لینڈ فرسٹ (این زیڈ ایف) اس معاہدے کی پارلیمنٹ میں بھرپور مخالفت کرے گی۔
گزشتہ روز جاری کیے گئے اپنے بیان میں ونسٹن پیٹرز نے کہا کہ یہ معاہدہ نیوزی لینڈ کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ اس میں ملک کی اہم ترین ڈیری مصنوعات جیسے دودھ، پنیر اور مکھن کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا تجارتی معاہدہ ہوگا جس میں ڈیری سیکٹر کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔
ونسٹن پیٹرز کے مطابق نیوزی لینڈ اپنی منڈی بھارتی مصنوعات کے لیے کھول رہا ہے جبکہ بھارت نے نیوزی لینڈ کی ڈیری برآمدات پر عائد بھاری ٹیرف کم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ صورتحال کسانوں اور دیہی علاقوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔
نیوزی لینڈ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2025ء تک ڈیری برآمدات کی مالیت تقریباً 13.94 ارب ڈالر رہی جو نیوزی لینڈ کی مجموعی برآمدات کا لگ بھگ 30 فیصد بنتی ہیں۔
امیگریشن پر اعتراضات
وزیرِ خارجہ نے تجارتی پہلو کے علاوہ امیگریشن سے متعلق شقوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اِن کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت بھارتی شہریوں کے لیے ایک نیا ملازمت ویزا متعارف کروایا جا رہا ہے جو فی کس بنیاد پر آسٹریلیا اور برطانیہ کے مقابلے میں زیادہ رعایت ہے۔
اُنہوں نے خبردار کیا کہ بھارتی طلبہ کو تعلیم کے دوران اور بعد میں کام کی اضافی اجازت مستقبل کی حکومتوں کے لیے امیگریشن پالیسی میں تبدیلی کو مشکل بنا سکتی ہیں۔
بھارت سے تعلقات پر مؤقف
ونسٹن پیٹرز نے واضح کیا ہے کہ اس مخالفت کا مقصد بھارت سے تعلقات کو نقصان پہنچانا نہیں۔
اُنہوں نے بھارت کو ایک اہم اسٹریٹجک شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ فرسٹ صرف ایسے تجارتی معاہدوں کی حمایت کرے گی جو واضح طور پر نیوزی لینڈ کے عوام کے مفاد میں ہوں گے جبکہ نقصان دہ معاہدوں کی مخالفت جاری رکھی جائے گی۔