میرے نوجوان دوستو !آپ کو اس اہم اور بنیادی تبدیلی کا پورا احساس ہو جانا چاہیے جو رونما ہو چکی ہے۔ اب آپ کو سرکاری ملازمت اختیار کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے جسکی آپ میں سے اکثر تمنا کیا کرتے تھے۔ آپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ آپ کیلئے نئے شعبے،ذرائع اور مواقع کے دروازے کھل رہے ہیں۔ اب آپ کو اپنی توجہ سائنس تجارت و بینکاری ،بیما ،صنعت اور فنی تعلیم پر مرکوز کر دینی چاہیے (قائد اعظم محمد علی جناح ۔اسلامیہ کالج پشاور کے طلباء کی جانب سے پیش کردہ سپاس نامے کے جواب میں تقریر 12 اپریل 1948)۔ آئیں بانی پاکستان کو سالگرہ کی مبارک باد دیں۔ آپ کراچی میں ہیں تو قائد اعظم کےوزیر مینشن پر ضرور حاضری دیں۔ حالات کچھ بھی ہوں اگر قائد اعظم نہ ہوتے تو ہمیں یہ الگ وطن کبھی نہ ملتا، ہم نے اس وطن کے ساتھ جو سلوک بھی کیا وہ ہماری کوتاہیوں کا اظہار ہے اس سرزمین میں اللہ تعالی کی کون سی نعمت نہیں ہے، کون سا موسم ہمیں میسر نہیں ہے، کون سا معدنی خزانہ نہیں ہے ۔صدیوں کی ثقافتیں۔ ہزاریوں کا تمدن۔ اردو سندھی پنجابی سرائکی پشتو بلوچی کشمیری بلتی براہوی کی عظیم شاعری اور داستانیں صوفیائے کرام کا دلوں میں گونجتا کلام۔ قائد اعظم کی بصیرت ملاحظہ ہو کہ وہ سات دہائیاں پہلے نوجوانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ صرف سرکاری ملازمت کو اپنی تمنا نہ بنائیں اپنی توجہ سائنس تجارت و بینکاری ،بیما ،صنعت اور فنی تعلیم پر مرکوز کریں ۔قائداعظم کا نام ہم سب لیتے ہیں لیکن انہوں نے مستقبل کی تعمیر کیلئے جن شعبوں اور جن نکات کی نشاندہی کی اور ساتھ ساتھ خطرات اور خدشات کا اظہار کیا۔ ہم نے انکے خدشات اور خطرات کو تو عملی جامہ پہنایا اور جن اقدامات کیلئےانہوں نے ہمیں ترغیب دی ان کو ہمارے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ریاستی مافیاؤں نے مل کر پس پشت ڈالا آج کچھ فرصت ملے تو قائد اعظم کو یاد کیجئے گا ۔ ہمارے پانچ دن کتابوں کے درمیان گزرے اس سے پہلے ایک دن ہمارا بھنبھور مکلی ٹھٹھہ اور کینجھر لیک پر گزرا تھا۔ سلام کتاب میلے کے منتظمین کو ناشرین اور مصنفین کو اور ان اسکول ٹیچرز خواتین و حضرات کو جو ہمارے مستقبل، ہماری بچیوں بچوں کو جوق در جوق لے کر میلے میں آئے رونقیں بڑھائیں چہچہاہٹوں میں اضافہ کیا ہمیں تو اپنے سٹال پر سینکڑوں ہم وطن بچوں بچیوں ماؤں بہنوں بزرگوں طالب علموں ٹیچروں اور محققوں سے گفتگو کا موقع ملا ۔ میں تو بزرگوں سے کہتا ہوں کہ ہماری نئی نسلیں ہم سے زیادہ باخبر ہیں انہیں اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی طاقت میسر ہے یہ پاکستان کو یقینا ًہم سے بہتر سنبھالیں گی۔ ہم نے تو اپنی مصلحت اور لالچ میں بہت کچھ گنوا دیا، گرا دیا ، یہ سارا ملبہ ہٹائیں گے بھی اور نئی بستیاں بھی تعمیر کریں گی ۔میں پھر اپنی ایک خواہش دہراؤں گا کہ کسی تحقیقی ادارے کو ان پانچ دن کے رحجانات کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کر کے عام کرنی چاہیے۔ جس سے واہگہ سے گوادر تک مایوسی دور ہوگی آفریں ہے ان سب پاکستانیوں پر جو ہزاروں کی تعداد میں کتاب کی جستجو میں یہاں آتے ہیں۔ اگر کسی صدر وزیراعظم کا آنا ہو تو جنگل میں بھی سڑکیں تیار کر دی جاتی ہیں۔لیکن جب محض کسی صوبائی وزیر تعلیم کو افتتاحی تقریب میں آنا ہو تو زبان حال سے اسے یہی کہنا پڑتا ہے:’’ انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ... میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے‘‘ ۔ان پانچ دنوں میں ہم نے کتاب کی لازوال طاقت کا تجربہ کیا کہ کیسے سندھی سرائیکی بلوچ پشتون کشمیری گلگتی پنجابی مہاجر کتاب کی تلاش میں ان تین ہالوں میں جھرمٹوں میں داخل ہو رہے تھے ان میں دینی مدارس والے بھی تھے یونیورسٹیوں کے بھی ہر زبان بولنے والے۔ ہر عمر کے پاکستانی۔ مجھے تو ان چہروں میں ایک امنگ اور پیشانیوں پر ایک عزم نظر آیا کچھ بہنوں کو تشویش تھی حالات کب بدلیں گے اسیر کب رہا ہوں گے۔ اکثریت مایوس نہیں ہے اسے تشویش ضرور ہے کہ ہماری معیشت کب پٹڑی پر واپس آئے گی۔ ہماری سیاست کب کسی آئین کے تحت منظم ہوگی۔ ہمیں اپنی منزل کا علم کب ہوگا ۔قومی سیاسی جماعتوں کو اگر داخلی اختلافات اور ذہنی الجھنوں سے چھٹکارا ملے تو ان کتاب میلوں سے بہت سبق حاصل کر سکتی ہیں۔ اپنے کارکنوں کیلئے بھی ایسے میلے سجائیں برسوں سے جماعتوں کی وفاداری کرنے والوں کو موقع دیں کہ وہ حالات حاضرہ پر اپنی جماعتوں کی پالیسیوں پر دلی اظہار خیال کر سکیں قومیں جب ایسی آزمائشوں سے گزر رہی ہوتی ہیں جن سے پاکستان اس وقت دو چار ہے۔ ان دنوں پارلیمنٹ ہی قوم کی رہنمائی کرتی ہے اور آزادانہ مباحث ہوتے ہیں کہ ہمارے اپنے مفادات کیا ہیں اور کن ممالک سے ہمارے مفادات مشترکہ ہیں۔ انسانیت کے وقار کے تحفظ کیلئے کن ملکوں سے ہمارا اختلاف ہے جمہوری ملکوں کی پارلیمنٹ ہی خارجہ پالیسی کا تعین کرتی ہے اور پارلیمنٹ ہی مذہبی پالیسیاں طے کرتی ہے۔ ریاستی اداروں کو تو ان پر صرف عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت ہماری سیاسی اور فوجی قیادتیں جن ملکوں کے دورے کر رہی ہیں اور جو غیر ملکی قیادتیں پاکستان کے دورے پر آرہی ہیں انکے بالآخر مقاصد کیا ہیں۔ ان سرگرمیوں سے پاکستان کے عوام کے کون سے مسائل حل ہونگے، ہماری معیشت کیسے مستحکم ہوگی۔ برآمدات کیسے بڑھیں گی، روزگار کے مواقع کن شعبوں میں وسیع تر ہوں گے۔ اور کیا اسرائیل کو تسلیم کرنا، ابراہیم ا کارڈ میں شامل ہونا ہماری اکثریت کے نزدیک قابل قبول ہے یا نہیں۔ ہر سال کتاب میلے میں جہاں یہ ذہنی تقویت ملتی ہے کہ ابھی کتاب زندہ ہے۔ وہیں یہ حوصلہ بھی میسر آتا ہے کہ ابھی پرنٹ میڈیا کا ایک اپنا مضبوط حلقہ باقی ہے 70 سال سے اوپر کے جنگ کے قاری بھی ملے جو 50 کی دہائی سے اخبار پڑھ رہے ہیں اور 21ویں صدی میں پیدا ہونے والے نوجوان بیٹے بیٹیاں بھی جنہوں نے میرا اتوار کا کالم بھی اخبار میں پڑھا تھا، نیٹ پر اخبار کے قاری تو بہت ملتے ہیں۔ مائیں اور باپ جنگ میں اتوار کے اس جملے کا حوالہ بہت دیتے ہیں کہ’’ اج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن‘‘۔کچھ بیٹیوں نے شکایت کی کہ ان کے والد اتوار کو دوستوں سے ملنے نکل جاتے ہیں ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھاتے لیکن زیادہ تر نے کہا کہ ہم اتوار کو اکٹھے لنچ کرتے ہیں۔ یقین جانیے کتاب میلہ ہمیں آئندہ پورے سال کیلئے ریچارج کر دیتا ہے۔ملکی حالات کو سنبھالنا اور ریاست کو ایک سمت دینا قومی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ قومی قیادت اسی طرح سرخرو ہو سکتی ہے۔ مملکت اسی طرح مستحکم ہو سکتی ہے،فصل پک رہی ہے، شعور اور دانائی کی ۔جو بھی قیادت کے دعویدار ہیں کتاب ان کو للکار رہی ہے کہ وہ خبردار ہوں وقت ہاتھوں سے نہ نکل جائے۔