آج بشمول پاکستان پوری دنیا میں مسیحی برادری کرسمس یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا دن منا رہی ہے۔درویش کو اکثر دوست احباب کرسمس اور نیوایئر کے حوالے سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا ہمیں یہ تہوار منانے چاہئیں؟ ناچیز کا جواب ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں اقوامِ عالم کے بیشتر تہوار مذہبی سے زیادہ ثقافتی و تہذیبی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔آج کی جمہوری قومی ریاستوں میں چاہے کوئی میجارٹی ہو یا مینارٹی حقوق سب کے ایک جیسے مساوی و برابرہیں۔ یو این ہیومن رائٹس چارٹر نے اپنی تمام دستخط کرنے والی ممبر ریاستوں پر یہ ذمہ داری عائد کررکھی ہے کہ وہ اپنے شہریوں میں امتیازی رویوں کا خاتمہ کریں، چاہے وہ امتیازی رویے نسلی و مذہبی ہوں یا جنسی و صنفی۔ آج کی ہر مہذب جمہوری قومی ریاست کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دیگر تمام امور و معاملات کی طرح قومی تہواروں میں بھی امتیازی رویوں کا خاتمہ کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی کی کاوش کرے تاکہ ملکی قومیتی افتراق کو اشتراک میں بدلا جاسکے اسی قربت سے قومی یکجہتی قومی طاقت و قوت میں بدلے گی۔ بلاشبہ کسی بھی قوم میں مختلف مذہبی و نسلی فرقوں یا گروہوں کو اپنے اپنے عقائد کی مطابقت میں اپنی اپنی خوشیاں یا غمیاں منانے کے حقوق حاصل ہیں لیکن ذمہ دار قومی قیادتوں
کی اولین ترجیح قوم کو توڑنے کی بجائے جوڑنا ہونی چاہیے۔ اسی اپروچ کے تحت پاکستان کے تین مرتبہ منتخب ہونے والے پرائم منسٹر نوازشریف نے کئی مرتبہ ہندو برادری سے یہ کہا تھا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ لوگ مجھے بھی اپنی دیوالی و ہولی کے تہواروں پر اپنے ساتھ شامل کیا کریں یہ امر خوش گوار ہے کہ اب وقت کے ساتھ تدریجاً کرسمس کی خوشیاں پاکستان بھر میں تقریباً مل جل کر منائی جارہی ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری مقدس ترین کتاب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے واقعہ کو جس صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ بے مثال ہے۔ اس کتاب لاریب میں پروردگار عالم کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کیلئے کہاجارہا ہے کہ ”سلام ہے اس دن پر جس دن عیسیٰ پیدا ہوئے“اگر ہم اس عظیم المرتبت ہستی کی پیدائش کے حوالے سے کتاب مقدس میں بیان کردہ الفاظ پر غور کریں تو سب سے بڑھ کر خودمسلمان حق بجانب ہیں کہ وہ عید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم ولادت کو احترام کے ساتھ منائیں۔ جہاں تک اس اعترض کا تعلق ہے کہ مسیحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قراردیتے ہیں لہٰذا اس ہستی کے دن کو سرے سے منایا ہی نہیں جانا چاہیے یہ سوچ بھی درست نہیں ہے خود مسیحیوں کے اندر بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے، ۔جب آپ اپنے چھوٹے موٹے پیروں فقیروں کے دن یا عرس مناسکتے ہیں تو ان عظیم الشان شخصیات کے ایام اپنے ڈھب میں منانے پر کیا ایشو ہے؟ وہ عظیم شخصیات جو کروڑوں نہیں اربوں انسانوں کی زندگیوں پر
اثرانداز ہوئیں اور ان کی عقیدتوںکا مرکز ومحور ٹھہریں۔ ایشو صرف اتنا ہے کہ آپ اپنے اندر سےمنافرت کو ختم کرتے ہوئے انسانیت اور مذاہبِ عالم سے محبت کرنا سیکھ لیں اور ہر عقیدے کی بزرگ شخصیت کا احترام کریں۔ رہ گئیں سالِ نو کی خوشیاں، ان پر بھلا کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے اگر یہ عیسوی کیلنڈر ہے تو کیا ہوا؟ اوپر یہی تو بحث کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہمارے اپنے ہیں۔ اگر پھر بھی ہم بضد ہیں کہ نہیں ہم نے تو اسلامی کیلنڈر کے مطابق ہجری سال کو منانا ہے تو ٹھیک ہے ضرور منائیے مگر ایشو یہ ہے کہ ان اسلامی مہینوں اور تاریخوں کی مطابقت میں حساب کتاب کرتا کون ہے؟؟ کیا ہمارے مذہبی و دینی لوگ ان تواریخ کے مطابق اپنے کھاتے لکھتے ہیں؟؟ دنیا کے قریباً ان سبھی اسلامی ممالک نے بھی ،جہاں سے اسلامی مہینے سال یا کیلنڈر شروع ہوئے تھے انہیں ترک کرتے ہوئے باضابطہ طور پر عیسوی کیلنڈر کو اپنالیا ہے ۔ سچائی یہ ہے کہ کوئی بھی اس کی مطابقت میں حساب کتاب نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی نئے اسلامی سال کو جوش و خروش یا خوشیوں کے ساتھ مناسکتا ہے کیونکہ اسلامی ہجری کیلنڈر محرم سے شروع ہوتا ہے جو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے دکھوں پر مبنی دس دن گردانے جاتے ہیں اب تو اہل سنت نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کیلئے بھی یکم محرم کو یومِ شہادت و سوگ قراردے دیا ہے۔ لہٰذا اسلامی و عیسوی کیلنڈر کی بحث میں پڑنے کی بجائے آپ انہیں قمری و شمسی کیلنڈر گرادنتے ہوئے یہ کہیں کہ جس طرح چاند کو خدا نے تخلیق کیا ہے اسی خدا نے سورج کو بھی بنایا ہے بلکہ چاند سے زیادہ توانائی سورج میں ہے تو کوئی ایشو نہیں ہونا چاہیے شمسی کیلنڈر کی مطابقت میں ہیپی نیو ایئر کی خوشیاں منانے میں۔