• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائدِاعظم کے برابر میں نواز شریف کا نام لکھنا بہت عجیب سا لگتا ہے، لیکن یہ نواز شریف کی خوش قسمتی ہے کہ ان دونوں کی سالگرہ کا دن ایک ہی ہے... 75 برس کوئی معمولی عدد نہیں۔ یہ وہ عمر ہے جس میں انسان نہیں، تاریخ بولنے لگتی ہے۔ اور جب تاریخ بولے تو عام طور پر ہم کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں، مگر کچھ آوازیں ایسی ہوتی ہیں جو انگلیوں کے درمیان سے بھی راستہ بنا لیتی ہیں۔ نواز شریف بھی انہی آوازوں میں سے ایک ہیں۔

75 برس مکمل کرنے پر وہ نہ صرف ایک فرد ہیں بلکہ ایک پورا عہد محسوس ہوتے ہیں...ایسا عہد جو کبھی جلاوطنی میں ملا، کبھی وزارتِ عظمیٰ میں، کبھی عدالتوں کے کمرے میں اور کبھی لندن کی سرد فضا میں گرم سیاسی بیانات کی صورت۔نواز شریف کی زندگی کو اگر مختصر کیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو قسطوں میں لکھا ہو اور ہر قسط کے آخر میں لکھ دیا ہو: جاری ہے! فرق صرف یہ ہے کہ یہاں اشتہار نہیں آتا، صرف انتخابات آ جاتے ہیں۔

یہ بات اب طے ہے کہ نواز شریف سیاست میں اتفاقیہ نہیں آئے۔ وہ لوہے کے کاروبار سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور پھر اقتدار کے ایوانوں سے جیل کے صحن تک، اور جیل سے باہر آ کر پھر وہیں پہنچ گئے جہاں سے نکلے تھے...عوام کے درمیان۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں بہت سے لوگ راستے میں ہی اتر جاتے ہیں، کچھ ٹائر پنکچر کرا بیٹھتے ہیں اور کچھ یوٹرن لے لیتے ہیں۔ نواز شریف کا کمال یہ ہے کہ وہ ہر بار سیدھی سڑک پر واپس آ جاتے ہیں، چاہے سڑک پر بیریئر ہی کیوں نہ لگے ہوں۔75 سال کی عمر میں عام آدمی چھڑی تلاش کرتا ہے، نواز شریف بیانیہ تلاش کرتے ہیں،اور عموماً ڈھونڈ بھی لیتے ہیں۔ ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ ماضی میں جیتے ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان میں حال اتنا بے یقین اور مستقبل اتنا بے اعتبار ہے کہ ماضی ہی واحد محفوظ جگہ لگتی ہے۔ نواز شریف کا ماضی کم از کم ان کا اپنا تو ہے۔

نواز شریف کی سیاست کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خاموش رہیں تو لوگ کہتے ہیں کیوں نہیں بول رہے، اور بولیں تو کہتے ہیں کچھ زیادہ ہی بول رہے ہیں۔ ان کے لیے درمیانی راستہ شاید کبھی بنایا ہی نہیں گیا، یا تو مکمل خاموشی یا مکمل خبر۔75 برس میں انہوں نے اتنے کم بیک کیے ہیں کہ کرکٹ ٹیم بھی رشک کرتی ہوگی۔ ایک زمانہ تھا جب ان کے جانے پر کہا گیا کہ اب سیاست ختم، پھر واپسی پر اعلان ہوا کہ اب سیاست شروع۔ گویا سیاست کوئی سوئچ ہے جو صرف نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ نواز شریف وہ واحد سیاست دان ہیں جنہیں باہر نکالا جاتا ہے اور وہ باہر سے بھی اندر کی سیاست کرتے رہتے ہیں۔ لندن میں بیٹھ کر پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونا بھی ایک فن ہے، اور یہ فن ہر ایک کے حصے میں نہیں آتا۔ کچھ لوگ لندن جا کر صرف موسم کی شکایت کرتے ہیں، نواز شریف وہاں جا کر موسمِ سیاست بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف نے پاکستان میں ترقی کا خواب بیچا-سڑکیں، موٹرویز، بجلی، کارخانے۔ عوام نے خواب خریدا، کچھ نے قسطوں پر، کچھ نے نقد، اور کچھ نے خواب ہی واپس کر دیا۔ مگر خواب دکھانے کی ہمت ہر سیاست دان میں نہیں ہوتی۔ کچھ تو آنکھیں بھی بند کروا دیتے ہیں۔

75سال کی عمر میں اگر کوئی شخص اب بھی سیاسی مرکزِ نگاہ ہو تو یہ اس کی کامیابی ہے یا ناکامی،اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ فی الحال تو حال یہی کہتا ہے کہ نواز شریف اب بھی موضوع ہیں، اور پاکستان میں موضوع ہونا خود ایک اعزاز ہے، کیونکہ یہاں موضوعات بہت جلد بدل جاتے ہیں، مگر نواز شریف نہیں بدلتے۔ان کی زندگی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ اقتدار مستقل نہیں، مگر سیاست مستقل ہو سکتی ہے۔ عہدے چھن سکتے ہیں، مگر اثر نہیں۔ عہد ختم ہو سکتے ہیں، مگر کردار نہیں۔75سال مکمل ہونے پر اگر ہم نواز شریف کو مبارکباد دیں تو دراصل ہم پاکستان کی سیاست کو مبارکباد دے رہے ہیں کہ اس نے ایک ایسا کردار پیدا کیا جو ہر بحران میں واپس آ جاتا ہے، ہر صفحے پر دوبارہ لکھا جاتا ہے اور ہر اختتام پر پھر سے شروع ہو جاتا ہے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی عمر75 سال ضرور ہوئی ہے، مگر ان کے گرد گھومنے والی سیاست آج بھی نو عمر ہے... سمجھ دار نہ مستقل، مگر ضدی ضرور۔اور ضد.... یہ تو شاید نواز شریف کی سب سے پرانی سیاسی وراثت ہے۔

تازہ ترین