• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسائل میں گھراہوا ہے مگر اس ایک مسئلے نے پاکستانیوں اور حکومت میں غصہ اور شرمندگی پیدا کر دی ہے کہ سعودی عرب نے تقریباً 56000 پاکستانی شہریوں کو بھیک مانگنے میں ملوث ہونے پر ملک بدر کر دیا ہے۔ یہ بات متعلقہ وزارت نے پارلیمنٹ کے فلور پر بھی بتائی ہے ۔سعودی عرب نے عمرہ ،زیارات ،سیاحتی ویزوں کے غلط استعمال پر اپنی تشویش سے پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے ۔ خلجی ممالک کی بڑھتی ہوئی شکایات کے جواب میں ایف ائی اے نے ہوائی اڈوں پر ملازموں کی تعداد بڑھا دی ہے اور مسافروں کی نگرانی و چیکنگ سخت ترین کر دی گئی ہے۔ صرف 2025 میں ایف آئی اےنے 66154پاکستانیوںکے بھیک مانگنے کیلئے بیرونِ ملک جانے کا انکشاف کیا ہے۔ مسافروں پر پابندیوں کےحالیہ اقدامات اسلام آباد کے اس فیصلے کے بعد کیے گئے جن میں بتایا گیا تھا کہ ہزاروں پاکستانی شہریوں کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا ہے جس سے انہیں ملک چھوڑنے سے موثر طور پر روکا جا سکے۔ یہ اعدادو شمار پاکستان کی قومی اسمبلی کے پارلیمانی پینل نے جاری کیے ہیں جس میں مسئلے کی نوعیت، گمبھیر تا اور پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر رسوائی اور دباؤ کو اجاگر کیا گیا ہے۔ میرے حساب سےیہی وجہ ہے کہ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نےپاکستانی شہریوں کیلئےاپنے ملکوںکےویزے جاری کرنے پر سختی سے پابندی لگا دی ہے تاکہ ان افراد کے ملک میں داخل ہونے اور بھیک مانگنےکے خدشات کم ہوسکیں۔ یہ بات بھی منظر عام پر آئی ہے کہ رواں سال سعودی حکام نے 50 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو گدا گری کی وجہ سے گرفتار کر کے ملک بدر کیا ہے ۔علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات میں آذربائیجان کے6ہزار، تاجکستان کے2500 اور دیگر اسلامی ممالک کے 2015 اسلامی کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ ایران اور عراق جیسے ملکوں میں بھی بھکاریوں کی تعداد بڑھی ہے ۔پاکستان میں سعودی سفارت کاروں نےڈیلی ڈان کو بتایا کہ ان کی جیلیں پاکستانی بھکاریوں اور گداگروں سے بھری پڑی ہیں۔ 2025 میں منظم گدا گروں کے نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاؤن کیاگیا۔تجزیہ نگار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ جب حکومت نے فروری 2025 میں بھیک مانگنے والوں میں پر پابندی کا بل منظور کیا، انسانی سمگلنگ کی روک تھام کا بل مہاجرین کی سمگلنگ کی روک تھام کا بل اور امیگریشن بل منظور کیے تھے تو پھر ایسا کونسا مافیا ہے جو ان تمام بلوں کی پروانہ کرتے ہوئے بھی مڈل ایسٹ بالخصوص سعودی عرب میں گدا گروں کے جھتے کے جھتے بھیج دیتا ہے ؟ وفاقی وزیر قانون اعظم نظیر تارڑ جنہوں نے یہ بل پیش کیے ،نے واضع طور پر اسمبلی کے پلیٹ فارم پر کہا کہ اسمگلنگ گینگز نے بھکاریوں اور گدا گروں کو بیرون ملک سمگل کرکےپاکستان کی عزت و وقار کو داغدار کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ قانون سازی میں باضابطہ طور پر’’منظم بھکاری‘‘ کو قابل سزا جرم کے طور پر شامل کیا گیا ہےـ ترمیم شدہ سمگلنگ کے قانون کے تحت سمگلروں کیلئے قید کی مدت تین سال سے بڑھا کر سات سال اور سات سال کی مدت بڑھا کر 10 سال تک کر دی گئی ہے علاوہ ازیں 10 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی یا دونوں سزائیں بیک وقت دی جا سکیں گی۔ ـ اُدھر مراکش کے ایک اخبار نے لکھا ہے کہ پاکستانی بھکاریوں نے سعودی عرب میں ادھم مچا رکھا ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں سے کہیں زیادہ 2023 میں مسجد الحرام کے علاقے میں جیب کترے پاکستانیوں کی تعداد میں اچانک اضافہ ہو گیا تھا جسکی وجہ اعلیٰ حکام جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی حکام نے بتایا ہے کہ ملک میں گرفتار ہونے والے بھکاریوں میں سے لگ بھگ90 فیصدپاکستانی شہری ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق (یہ تجزیہ نگار میں بھی ہو سکتا ہوں) بھیک مانگنا غیر ہنر مند افراد کے مقابلے میں زیادہ آمدنی رکھتا ہے ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 230 ملین کی آبادی میں اندازاً 38 ملین پیشہ ور بھکاری پائے جاتے ہیں فی بھکاری کی روزانہ اوسطاً آمدن تقریباً 850 روپے ہے جو سالانہ خیراتی امداد میں 23 سالانہ تقریباً 117 ٹریلین روپے بنتی ہے ۔مذہبی رسومات گداگری کو بڑھا دیتی ہیں۔ مزارات کی زیارت اور مزاروں پر خیرات بانٹنا گدا گری سے جڑا ہوا ہے ان میں اکثر اغوا شدہ بچے شامل ہوتے ہیں، صرف کراچی میں 2010 میں 5 ہزار بچے لاپتا ہوئے تھے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کا کہناہے کہ پاکستان کی آبادی کےتقریباً2.5 فیصد لوگ بھیک مانگ کرگزارا کرتے ہیں تقریباً 1.2 ملین بچے بڑے شہروں کی سڑکوں اور کونے کھدروں میں رہتے ہیں۔اور جیسا کہ میں نے سنا ہے ہمدردی ہمیشہ خوف سے زیادہ گرجدار ہوتی ہے۔

تازہ ترین