2025 ءبہت سی سفاکیوں اور بے یقینیوں کے ساتھ رخصت ہو رہا ہے۔نیا سال 2026ءدو تین روز بعد طلوع ہونے والا ہے ہم رسمی طور پر نیا سال مبارک تو کہہ سکتے ہیں مگر کچھ زیادہ توقعات نہیں باندھ سکتے۔ کیونکہ 2025ءکے فیصلوں اور اقدامات کے نتائج ہی 2026ءمیں برآمد ہونگے۔ 2025ء ایسا سال رہا ہے کہ اس کو الوداع کہتے وقت کوئی افسوس نہیں ہوگا ۔ ہم نے سال کے آغاز میں تو بہت دعائیں بھی کی تھیں۔ لیکن ہم اسے مثالی سال نہیں بنا سکے سیاسی اعتبار سے نہ سماجی اور نہ ہی اقتصادی ۔دفاعی اعتبار سے مئی میں پاکستان کو اپنے ازلی دشمن بھارت کی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے بہت مسرت نصیب ہوئی ۔دنیا نے ہماری دفاعی برتری کو تسلیم کیا ۔ہماری حکمران پارٹیوں نے اپنی مسلح افواج کی اس کارکردگی کی پذیرائی کی۔ بری فوج کے سربراہ کو فیلڈ مارشل کا عہدہ بھی تفویض کیا گیا ۔پھر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے انہیں کمانڈر آف ڈیفنس فورسز بھی پانچ سال کیلئے بنا دیا اور آئندہ کسی احتساب سے استثنیٰ بھی دے دیا ۔
پاکستان کے عوام کہیں بھی رہتے ہوں بلوچستان،سندھ، پنجاب، کے پی کے میں آزاد جموں کشمیر یا گلگت بلتستان میں یا پھر سمندر پار کے ملکوں میں۔انکی پاکستان سے وابستگی اور وفاداری لازوال ہے۔ لیکن پاکستان میں رہتے ہوئے اکثریت بہت زیادہ مسائل سے دوچار ہے۔ روزگار کے نئے دروازے نہیں کھل رہے۔ کوئی بڑے کارخانے نہیں لگ رہے۔ بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ فی کس آمدنی فی کس ضروری اخراجات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔پاکستانی روپے کو کوئی مضبوط سہارا نہیں مل رہا ہے۔ ایک ڈالر 280روپے تک پہنچا ہوا ہے۔ 1985ءسے پاکستان کو جو سیاسی قیادتیں میسر آ رہی ہیں وہ اب بھی حکومت میں اتحادی ہیں۔ 1985ء میں ایک ڈالر 15 روپے کا تھا اب جبکہ 280 تک پہنچ گیا ہے،اس کے اثرات ہماری مجموعی معیشت پر بری طرح پڑرہے ہیں۔
آج اتوار ہے۔ اپنے پوتے پوتیوں، بیٹے بیٹیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور ان سے تبادلہ خیال کا دن۔ ہماری فرمائش آپ سے یہی ہوتی ہے کہ آپ ملکی سطح پر تو کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکتے لیکن اپنے گھر میں تو تبدیلی لا کر اسے مستحکم کر سکتے ہیں۔ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں۔ آپ آج اپنی اولادوں سے پوچھیں کہ 2026 ءکیلئے ان کے کیا عزائم ہیں اور وہ 2026ءکو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے گھر میں جو معاملات نا مکمل ہیں انہیں اس سال مکمل کر لیں ۔محلے میں کوئی مسائل ہیں تو انہیں مل جل کر طے کریں ۔قومیں اسی طرح ترقی کرتی ہیں۔
میں تو شب و روز یہی سوچتا ہوں کہ ہماری اولادیں جو سوشل میڈیا کی بدولت ہم سے زیادہ باخبر ہیں۔ ان کے نزدیک ایک مثالی معاشرہ آخر کیا ہے۔ وہ جن یورپی ملکوں میں جانے کیلئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں۔ اپنے گھر زرعی زمینیں فروخت کرتے ہیں۔ ان ملکوں کی کیا سہولتیں انہیں دلکش لگتی ہیں۔ میری گزارش یہ بھی ہوتی ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں تحقیقی ادارے نوجوانوں کے رجحانات پر رپورٹیں مرتب کریں کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت کے نزدیک ایک مثالی ملک کے کیا خدوخال ہیں۔ ان کے ذہن میں خوشحالی کا کیا تصور ہے؟ وہ کس سسٹم میں اپنے آپ کو محفوظ اور کارآمد سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ معاشرے میں انہیں کیا کیا مشکلات نظر آتی ہیں جنکی وجہ سے وہ یہاں سے جانا مناسب سمجھتے ہیں۔
ہماری حکمراں قومی سیاسی جماعتیں تو اپنی جگہ بہت مطمئن اور خوش دکھائی دے رہی ہیں اور ان کے لیڈر برملا کہتے بھی ہیں کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔بعض بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان کے اشاریے بہتر قرار دے رہے ہیں۔ 2025ء میں جس قسم کے دن رات گزرے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ کے نزدیک کیا یہی مثالی اشاریے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کو ہر روز جس سسٹم کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیا ہماری حکمران جماعتوں کے نزدیک یہی قابل فخر ہے؟ماہرین معیشت کے نزدیک تو ہمارے اقتصادی نظام میں بہت خلا ہیں ۔ درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ برآمدات ابھی تک کم ہیں۔ مینوفیکچرنگ بہت کم ہو چکی ہے۔ 2025ءبھی اس حوالے سے زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا ہے ہمارا جن حلقوں میں آنا جانا ہوتا ہے۔ وہاں یہی تاثر ملتا ہے۔ پھر ابھی پانچ روزہ کتاب میلے میں جن سینکڑوں بزرگوں ،ماؤں،بہنوں، بیٹیوں، اساتذہ سے تبادلہ خیال کا موقع ملا ہے اور اب کراچی میں پاکستان آرٹس کونسل میں جو عالمی اردو کانفرنس ہو رہی ہے ۔پاکستان بھر میں جو کتاب میلے ہو رہے ہیں۔ لٹریری فیسٹیول منعقد کیے جا رہے ہیں۔ اس میں بھی بڑی تعداد میں حساس لوگ آپس میں ملتے ہیں۔ کہیں سے اطمینان اور تسکین کی اطلاع نہیں آتی۔ ادبی تخلیقات میں بھی عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے ۔ان سب کے باوجود عام پاکستانی کی اپنی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اسکی انفرادی کاوشوں سے ملک کو استحکام نصیب ہو لیکن ہمارے ہاں ایسا سماجی اقتصادی سسٹم فعال نہیں ہے اور کوئی ایسا سازگار ماحول نہیں کہ ہرپاکستانی کی سوچ اور کوشش ملک کو براہ راست مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہو سکے۔ ایک تاثر عام یہ ہے کہ حکمران طبقے اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ میڈیا جو مشورے دیتا ہے اور تحقیقی ادارے جو رپورٹیں مرتب کرتے ہیں۔ ان سے عام طور پر کوئی استفادہ نہیں کیا جاتا۔ جمہوری معاشروں میں اور ایسے ملکوں میں جہاں سالہا سال کی عرق ریزی، جدوجہد، فکری مساعی سے نظام مرتب کیے جاتے ہیں۔ آئین منظور کیے جاتے ہیں۔ان کے تحت پورے ریاستی ادارے، سرکاری محکمے، پرائیویٹ کاروباری سیکٹر اور درسگاہیں کام کرتی ہیں۔ ان کامیاب قوموں نے جن اصولوں پر اور حدود و قیود کے اندر ایسے سسٹم تشکیل دیے ہیں کہ وہاں ہر فرد کی سوچ اور کوشش براہ راست ملک کے استحکام میں ایک نتیجہ خیز کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے نیٹ ورک سے گریز کیوںکیا جاتا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ریاست اور ریاست کے عوام کی اکثریت کے درمیان اس طرح دوریاں بڑھتی جاتی ہیں ۔ایک طرف عوام اپنے آپ کو بے بس اور بانجھ خیال کرتے ہیں۔ دوسری طرف ریاست اس اکثریت کو بیگانہ سمجھنے لگتی ہے پھر ریاست کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سخت ہو جائے اپنے آپ کو زیادہ اختیارات دیے جائیں۔ اسی میں ملک کی بقا ہے۔ 2025ء میں اس سوچ میں شدت آئی ہے۔ اس سال حکمران فعال تو بہت نظر آئے ہیں ۔مگر ان دوروں کا ملک کی اقتصادی حالت پر کیا اثر پڑا ہے اور ایک عام آدمی کی مالی حیثیت میں کیا بہتری آئی ہے ؟۔اب سوال یہی ہے کہ 2025ءمیں قومی سیاسی قیادتوں کے جو رویے رہے ہیں انکے نتیجے میں 2026ء میں ان سیاسی جماعتوں سے اور ان کی پالیسیوں سے کیا کسی شعبے میں کسی بہترین کی توقعات کی جا سکتی ہیں؟؟