فلم کی کہانی بہت اچھوتی اور دلچسپ ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی نامعلوم سیارے سے زمین پر ایک سگنل موصول ہوتا ہے، سائنس دان تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سگنل چھ سو نوری سال کے فاصلے پر واقع کسی سیارے سے آیا ہے، مزید تحقیق سے انکشاف ہوتا ہے کہ دراصل یہ آر این اے کا کوئی کوڈ ہے۔ سائنس دان اِس کا راز معلوم کرنے میں جُت جاتے ہیں اور اُس آر این اے کوڈ کو چوہوں پر آزماتے ہیں۔ اِس دوران انہیں پتا چلتا ہے کہ لیبارٹری میں ایک چوہا مرنے کے قریب ہے، وہاں موجود سائنس دان اُسکے دل کی دھڑکن جاننے کیلئے اپنا دستانہ اتارتی ہے مگر چوہا اسے کاٹ لیتا ہے جسکے بعد ایک نامعلوم وائرس اُسکے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ وائرس دوسرے لوگوں میں منتقل ہو جاتا ہے اور چند ہی دنوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔ شروع شروع میں اِس وائرس سے خاصی افراتفری پھیلتی ہے، لاکھوں لوگوں کی اموات ہوتی ہیں، شہروں کی صورتحال ابترہو جاتی ہے مگر جب حالات’معمول‘ پر آتے ہیں تو یہ حیران کُن بات سامنے آتی ہے کہ اِس وائرس نے پوری انسانیت کو یکجا کرکے انہیں دائمی مسرت عطا کر دی ہے، اب ہر انسان مطمئن ہے اور اپنے حال میں خوش ہے، کسی کو کوئی شکایت نہیں، یہ لوگ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، کسی کو ہلاک نہیں کر سکتے، یہ گوشت خور بھی نہیں ہیں حتّیٰ کہ درختوں سے پھل بھی کاٹ کر نہیں کھاتے جب تک وہ خود بخود زمین پر نہ گِر پڑیں۔ زمین کی پوری آبادی اِس وائرس کا ’شکار‘ ہے ماسوائے تیرہ افراد کے جو اِس وائرس کی زد میں آنے سے محفوظ ہیں، جن میں ایک خاتون لکھاری کیرول بھی ہے۔ کیرول کو یہ ’مصنوعی پُر مسرت دنیا‘ قبول نہیں، وہ چاہتی ہے کہ دنیا اسی حالت میں واپس آ جائے جیسی وائرس سے پہلے تھی، کیرول دنیا کو ’مسرت‘ سے نجات دلانا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کیرول کی یہ خواہش درست ہے، اگر لوگ کسی وائرس کی وجہ سے ہی خوش ہیں تو کیا یہ کوئی غلط بات ہے، اور کیا کیرول دنیا کو اِس دائمی خوشی سے محفوظ رکھ پائے گی؟ یہ جاننےکیلئے آپ کو ایپل ٹی وی کی سیریز Pluribus دیکھنی پڑئیگی، یہ سیریز میرے پسندیدہ تخلیق کار Vince Gilligan نے بنائی ہے، یہ وہی شخص ہے جس نے دنیا کی بہترین سیریز Breaking Bad بنائی تھی۔ کسی انسان کو زندگی میں کیا چاہیے؟ بے پناہ دولت، طاقت، جاہ و حشمت، حکمرانی...فہرست طویل ہو سکتی ہے، مگر یہ تمام چیزیں درحقیقت ذریعہ ہیں مسرت کے حصول کا، اِن میں سے کوئی بھی چیز اگر آسودگی اور خوشی کا باعث نہیں بن سکتی تو وہ بیکار ہے کیونکہ انسان کا حتمی مقصد بہرحال خوشی کا حصول ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا خوشی حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی قیمت ادا کی جا سکتی ہے، چاہے وہ قیمت کسی ایسے وائرس کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو جسکا شکار پوری دنیا کی آبادی ہو جائے؟ اسی مسئلے کو امریکی لکھاری Ursula K. Le Guin نے نہایت منفرد انداز میں اپنی ایک مختصر کہانی The Ones Who Walk Away from Omelas میں بیان کیا ہے۔ سمندر کے کنارے ایک شہر آباد ہے، اومیلاس۔ یہ ایک مثالی شہر ہے جہاں نہ کوئی بادشاہ ہے نہ رعایا، نہ قید و بند کی صعوبتیں ہیں اور نہ غلامی کا تصور، لوگ آزاد ہیں اور پُر مسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ شہر کی پرمسرت زندگی کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد لکھاری بتاتی ہے کہ اُس شہر کے کسی گھر کے نیچے، ایک تہہ خانے میں، ایک تنگ و تاریک کمرہ ہے، وہاں ایک دس برس کا بچہ قید ہے، تہہ خانے میں نہ روشنی ہے نہ صفائی۔ وہ بچہ خوف زدہ ہے، بھوکا ہے، تنہا ہے۔ اسے کبھی کبھی دروازہ کھول کر محض اِس قدر خوراک دی جاتی ہے کہ وہ زندہ رہ سکے۔ وہ باہر کی دنیا کو یاد کرتا ہے مگر اُسکی رسائی وہاں تک نہیں۔ اومیلاس کے تمام لوگ اُس بچے کے بارے میں جانتے ہیں، انہیں بتایا جاتا ہے کہ شہر کی ساری خوشحالی، امن، خوبصورتی، سب اُس بچے کی تکلیف کی مرہون منت ہے۔ اگر اُس بچے کو آزاد کیا گیا یا اُس پر رحم کیا گیا تو اومیلاس کی تمام مسرتیں اور نعمتیں ختم ہو جائیں گی۔ شہر کے بچوں کو اُس بد نصیب بچے سے ملوایا جاتا ہے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ اُنکی خوشی کی قیمت کیا ہے، شروع شروع میں جب وہ اُس بچے سے ملتے ہیں تو انہیں بے حد دکھ ہوتا ہے مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ تر لوگ اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر سلا دیتے ہیں کہ شہر کی خوشی کے بدلے بچے کی تکلیف کا سودا برا نہیں۔اِن دونوں کہانیوں میں ایسے سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ بندہ چکرا کر رہ جاتا ہے۔ اومیلاس میں قید بیمار، لاغر اور بے بس بچے کو اگر رہا کر دیا جائے اور اسے مکمل خوراک دی جائے تو اومیلاس مثالی شہر نہیں رہے گا، پھر اُس شہر میں غربت اور افلاس بھی ہوگی اور ظلم اور جبر بھی، وہاں اُس جیسے سینکڑوں، ہزاروں بچے ہونگے جنکی حالت شاید تہہ خانے میں قید بچے سے بھی بدتر ہو، کیا ایسی صورتحال میں اومیلاس کے باسیوں کو اُس بچے کو تاحیات قید میں رکھنا چاہیے یا مستقبل کی پروا کیے بغیر اُس معصوم کو رہا کر دینا چاہیے۔ اور اگر اسے قید رکھنا چاہیے تو اگلا سوال یہ ہوگا کہ پھر ہم انسان اپنی خوشی کیلئے کتنی قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں! اور Pluribus کے وائرس سے ہمیں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے، کیا یہ اچھا نہیں کہ پوری انسانیت ایک وائرس کی برکت سے طمانیت پا لے چاہے اُسکے بعد انسانوں کی انفرادیت ختم ہو جائے اور وہ تقریباً مشینوں کی طرح ہی برتاؤ کیوں نہ کرنے لگیں! شاید آپ میں سے زیادہ تر لوگوں کا جواب ہو گا کہ یہ وائرس انہیں قبول نہیں لیکن جس طرح کا نقشہ Pluribus میں کھینچا گیا ہے اسے دیکھنے کے بعد شاید آپ اپنا خیال تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ معمہ بہرحال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ کسی انسان کو اپنی خوشی کی کس قدر قیمت ادا کرنی چاہیے ؟ میری رائے میں مسرت کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں، خاص طور سے ایسی صورت میں جب یہ خوشی کسی اور کی تکلیف سے مشروط ہو۔ اومیلاس میں یہ خوشی ایک بچے کی تکلیف سے مشروط ہے جو ناقابل قبول بات ہے۔ تاہم جو سوال Pluribus میں اٹھایا گیا ہے وہ زیادہ دلچسپ اور پیچیدہ ہے اور اِس کا آسان جواب دینا مشکل ہے۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر سوال کا جواب ملے، بعض سوالات ہی اِس قدر خوبصورت ہوتے ہیں کہ بندہ اُنکے نشے میں ڈوب جاتا ہے۔ ایسا ہی یہ سوال ہے!