• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن کواسکے نام کے مخفف ( PIA)کی وجہ سے ابتدا میں، بالخصوص نوجوانوں کے حلقوں میں ’’پیا‘‘ کہا جاتا تھا۔ کرائے پر حاصل کیے گئے چند جہازوں سے کام شروع کرنیوالی اس کمپنی کے ڈسپلن، عملے کی مہارت اور انتظامیہ میں فضائی کمپنی کا تجربہ رکھنے والوں کی موجودگی نے اس ادارے کی ساکھ جلد ہی اس مقام پر پہنچا دی کہ اسکا شمار عالمی سطح کی تین بہترین فضائی کمپنیوں میں ہونے لگا۔ مگر بعد ازاں سیاسی مداخلتوں اور غلط بخشیوں نے اس کا ایسا حال بنا دیا کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم شوکت عزیز پی آئی اے کوملکی معیشت پر بوجھ قرار دیتے رہے جبکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط میں اسکی نجکاری پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے۔ منگل23دسمبر 2025ء کو اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں شفاف نیلامی کی صورت میں اس ادارے کی نئی اڑان کیلئے زمین ہموار کرنے کا عمل شروع ہوتا محسوس ہوا۔ عارف حبیب کنسورشیم نے ایک سخت مقابلے کے بعد قومی ایئر لائنز پی آئی اے کے75فیصد شیئرز 135 ارب روپے میں خرید لیے۔ یوں ایئر لائن کی مجموعی مالیت180 ارب روپے ہو گئی۔ PIA کے پاس اس وقت 40جہازوں کا بیڑہ ہے جن میں سے صرف18کار آمد ہیں۔اگرچہ اپنے فخر کا نشان سمجھے جانے والے اثاثوں کی فروخت پر کوئی بھی خوش نہیں ہوتا مگر جب ملکی معیشت آزمائش کے جال سے نکالنے کی کاوشیں کامیابی کی طرف لے جانے کا چیلنج درپیش ہو اور ایک ادارے کا ملکی معیشت پر بڑھتا بوجھ کئی برس سے50ارب روپے سالانہ نظر آ رہا ہو تو وزیر اعظم شہباز شریف کے اس موقف کی اصابت کئی حوالوں سے سامنے آتی ہے کہ ’’بڈ‘‘ جو بھی کنسورشیم جیتے، حقیقی کامیابی پاکستان کی ہے۔ اس ضمن میں بڑا حوالہ یہ ہے کہ اس نیلامی میں ملکی خریداروں کی دلچسپی نمایاں ہوئی۔ واضح رہے کہ پچھلے سال اکتوبر میں بھی پی آئی اے کی خریداری کیلئے بولی لگائی تھی جس میں قومی فخر کی علامت کہلانے والے ادارے کی ایک کمپنی نے محض 10 ارب روپے کی بولی لگائی تھی جبکہ حکومت نے اس کی کم از کم قیمت 85ارب روپے مقرر کی تھی۔ سابقہ نیلامی میں بولی کم لگنے کی ایک بڑی وجہ پی آئی اے پر واجب قرضے تھے۔ دوسری وجہ جی ایس ٹی میں اضافہ اور تیسری وجہ یورپ اور امریکہ کے روٹ پی آئی اے کیلئے بند ہونے کی تھی۔ اب حکومت جی ایس ٹی ختم کرچکی ہے، پی آئی اے قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہے اور مغربی ملکوں کی فضائوں پر پاکستانی فضائی کمپنی کی پروازوں پر عائد پابندی بھی ختم ہوچکی ہے تو ملکی سرمایہ کار اس میں دلچسپی لیتے محسوس ہوئے۔ حکومت کی منشا بھی پی آئی اے کی فروخت کی صورت میں اس سے جان چھڑانا نہیں، اس ادارے کو زبوں حالی سے نکال کر اس کی عظمت رفتہ بحال کرنا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بات بطور خاص باعث طمانیت ہے کہ یہ کمپنی پاکستانیوں کے ہاتھوں میں رہے گی اور اسکے انتظام و انصرام میں جن اداروں کی شمولیت کا امکان نمایاںہے وہ اپنی عمدہ ساکھ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ معروف کاروباری شخصیت عارف حبیب نے اس ڈیل کو پاکستان کی جیت قرار دیکر پاکستانیوں کے اس فخر کی تسکین کی ہے، جو وہ اس ادارے کی ماضی کی شاندار کارکردگی کے حوالے سے رکھتے اور مستقبل میں جسکی امید رکھتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک اور انکے تجارتی اداروں نےپی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے ماضی کی کاوشوں کی ناکامی اور حالیہ کاوش کی کامیابی کے تناظر میں مستقبل کے سودوں کے امکانات کا تجزیہ شروع کردیا ہوگا۔ہمارے ہاں ایسے اداروں کی ایک طویل فہرست ہے، جنکی نجکاری کی جانی ہے۔ ان کے معاملات میں ملکی سرمایہ داروں کی جتنی زیادہ دلچسپی نظر آئے گی بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں اتنا ہی اضافہ ہوگا اور جو بیرونی سرمایہ کاربعض ایم او یوز (اظہار دلچسپی کی یادداشتوں) پر تاحال حتمی فیصلہ نہیں کرسکے انکے باقاعدہ سمجھوتوں کی طرف بڑھنے کےامکانات نمایاں ہونگے۔ عارف حبیب گروپ کے چیئرمین کی طرف سے پی آئی اے کے باقی ماندہ حصص بھی خریدنے کی خواہش اور اس میں فوجی فرٹیلائزر کنسورشیم اور کسی اور گروپ کی شمولیت کے امکان کے اظہار کیساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پی آئی اے میں جہازوں کی تعداد بڑھائی جائیگی۔ ان کے بیان کے بموجب پی آئی اے کے موجودہ تجربہ کار ملازمین کے خدمات سے فائدہ اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ یوں نجکاری سے موجودہ ملازمین کو درپیش خدشات نہ صرف دور ہوگئے ہیں بلکہ یہ امکانات بھی نمایاں ہوئے ہیں کہ مزید لوگوں کو روزگار ملے گا۔ مستقبل قریب میں جن اداروں کی نجکاری کے امکانات ہیں، ان میں بھی ایسی پارٹیوں کو ترجیح دی جانی چاہیے جو حقیقتاً کاروبار جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہوں اور اس امکان کا راستہ بند کیا جانا ضروری ہے کہ نئی پارٹی ادارے کی املاک بیچ کر کاروبار بند کردے اور پیسہ کہیں اور لگا دے۔ صنعتی و تجارتی ادارے سرکاری مداخلت کے بغیر چلیںگے تو اپنی املاک کی حفاظت بھی کرینگے۔ دنیا بھر کی کامیاب معیشتوں میں حکومت پالیسی کا تسلسل دیتی ہے اور وہ تمام راستے اختیار کرتی ہے، جس سے سرمایہ کاری میں مدد ملے۔ وطن عزیز میں ریاست کے خود ہی کاروبار کرنے کے فیصلوں کے نقصانات سیاسی بھرتیوں، کارکردگی میں کمی، بدعنوانی سمیت ایسی کیفیات کی صورت میں نمایاں ہوئے جن سے معیشت کو نقصان پہنچا۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک سرکار کے بنائے ہوئے کئی اداروں کی تباہی و بربادی کا تجربہ و تجزیہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ حکومت کو تجربہ کار صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو ہر قسم کی سہولت دینی چاہئے تاکہ معیشت کی ترقی کیساتھ روزگار کے مواقع خود بخود پیدا ہوں۔ حکومت کوخود روزگار فراہم کرنے کی ذمہ داری لیکر صنعتی و کاروباری اداروں کو غلط بخشیوں کا ذریعہ بنائے جانے کے امکانات سے بچنا چاہئے۔

تازہ ترین