عدالتوں میں برسوں سے زیرِ التوا دیوانی مقدمات عوام کے دلوں میں انصاف سے زیادہ بے یقینی کو جنم دیتے ہیں۔تاریخ پر تاریخ کا سلسلہ ذہنی تھکن، اضطراب اور نااُمیدی کو معمول بنا دیتا ہے۔حق کے حصول کی جدوجہد میں عمر، وسائل اور اعتماد سب گھلنے لگتے ہیں۔عدالتی دہلیز پر کھڑا سائل خود کو قانون نہیں بلکہ وقت کے ہاتھوں ہارا ہوا محسوس کرتا ہے۔یوں انصاف کی تاخیر اجتماعی نفسیات پر خاموش مگر گہرا زخم چھوڑ جاتی۔
حکومت پنجاب ہر روز نت نئی پالیسیاں متعارف کروا رہی ہے۔نئی نئی کمپنیاں معرض وجود میں آ رہی ہیں۔بہت سے اقدامات پر مختلف قانونی اور سیاسی حلقے اعتراض کر رہے ہیں لیکن زمینوں کے تنازعات نمٹانے کے حوالے سے حکومت پنجاب کی پالیسی ایک ایسا قدم تھا جسے ہر مکتب فکر نے سراہا تھا۔عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا تھا۔سالوں سے زیر التوا تنازعات کا فیصلہ دنوں میں ہونے لگا تھا کہ اچانک عدالتِ عالیہ کی جانب سے حکومتِ پنجاب کے لینڈ پروٹیکشن آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔اس میں ایسے ریمارکس بھی دیے گئے جس پر فہمیدہ لوگ چونک گئے۔عدالت عالیہ کا اقدام محض ایک قانونی فیصلہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس نے پنجاب بھر میں زمینوں کے تنازعات سے متاثرہ لاکھوں شہریوں کے دلوں میں بے شمار سوالات اور خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پنجاب پہلے ہی عدالتی تاخیر، زمینوں پر قبضے، اور پٹواری و مافیا گٹھ جوڑ جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ بادی النظر میں یہ فیصلہ آئینی نکات کے گرد گھومتا دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے زمینی حقائق اور عوامی اثرات کا سنجیدہ جائزہ لیا جائے تو صورتحال خاصی مختلف نظر آتی ہے۔ پنجاب حکومت کا لینڈ پروٹیکشن آرڈیننس (جو اب اسمبلی سے منظور ہو کر ایکٹ بن چکا ہے) دراصل ایک انتظامی مجبوری کا نتیجہ تھا۔ دیہی و شہری پنجاب میں زمینوں پر ناجائز قبضے، جعلی انتقالات، اور طویل عدالتی عمل نے عام آدمی کو انصاف سے مایوس کر دیا تھا۔ ایک ایک مقدمہ برسوں نہیں بلکہ دہائیوں تک چلتا ہے، فریقین نسل در نسل عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، اور آخرکار طاقتور فریق مالی و سیاسی اثر و رسوخ کے بل بوتے پر فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ ایسے میں حکومت نے ایک ایسا قانونی فریم ورک متعارف کرایا جس کا مقصد فوری ریلیف، قبضہ مافیا کی حوصلہ شکنی، اور انتظامی سطح پر تنازعات کا حل تھا۔عدالتِ عالیہ نے اس آرڈیننس کو اختیارات کی تقسیم اور عدالتی دائرہ اختیار میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پنجاب میں زمین سے متعلق مقدمات عدالتی نظام پر سب سے بڑا بوجھ ہیں۔ ہزاروں مقدمات ایسے ہیں جن میں حکومتِ پنجاب خود فریق ہے، اور وہ مقدمات بھی برسوں سے عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔ جب ریاست خود انصاف کی راہ میں تاخیر کا شکار ہو تو عوام سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مزید انتظار کریں، دراصل انہیں ایک نہ ختم ہونے والے عذاب کے حوالے کرنے کے مترادف ہے۔ لینڈ پروٹیکشن ایکٹ اسی خلا کو پُر کرنے کی ایک کوشش تھی، نہ کہ عدلیہ کو کمزور کرنے کی سازش۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں انتظامی اختیارات کے غلط استعمال کی مثالیں موجود ہیں، مگر کیا اس بنیاد پر ہر اصلاحی قدم کو ہی روک دینا دانشمندی ہے؟ اگر عدالت کو اس قانون کے بعض نکات پر تحفظات تھے تو انہیں بہتر بنانے، حدود متعین کرنے یا نگرانی کا مؤثر نظام تجویز کرنے کا راستہ بھی اختیار کیا جا سکتا تھا۔ مکمل طور پر قانون کو ختم کر دینا ایک ایسا فیصلہ ہے جس سے قبضہ مافیا، بااثر زمینداروں اور لینڈ گریبرز کو غیرعلانیہ ریلیف ملتا دکھائی دے رہا ہے۔ انصاف اگر صرف قانونی موشگافیوں میں الجھ جائے اور انسانی تکلیف کو نظر انداز کر دے تو پھر ایسے انصاف پر سوال اٹھنا فطری امر ہے۔
یہ بھی قابلِ غور پہلو ہے کہ دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں زمینوں کے تنازعات کے حل کے لیے خصوصی ٹربیونلز اور انتظامی میکانزم رائج ہیں، تاکہ عام عدالتیں بوجھ سے آزاد رہیں اور عوام کو فوری انصاف مل سکے۔ پنجاب حکومت کا آرڈیننس بھی اسی تصور کے تحت لایا گیا تھا، مگر بدقسمتی سے اسے اختیارات کی جنگ کا رنگ دے دیا گیا۔ عدلیہ یقیناً ریاست کا ایک ستون ہے اور اس کا احترام ہر شہری پر لازم ہے، مگر یہ احترام اس وقت مضبوط ہوتا ہے جب فیصلے عوامی اعتماد کو بڑھائیں، نہ کہ کمزور کریں۔ عدالت کو چاہئے کہ وہ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اسی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرے جیسے یہ قانون ختم کرنے کے لیے کیا گیا۔ لینڈ پروٹیکشن آرڈیننس کے خاتمے کے بعد عام آدمی ایک بار پھر اسی سوال کے ساتھ کھڑا ہے کہ وہ کہاں جائے، کس دروازے پر دستک دے، اور کب تک انصاف کا انتظار کرے؟
اب جبکہ لینڈ پروٹیکشن ایکٹ اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے،حکومت نے ہر ضلع میں ریٹائرڈ سیشن جج صاحبان پر مشتمل ٹربیونل تشکیل دیدیے ہیں اور انتظامی افسران کو اس عمل کی انجام دہی کے لیے قانونی فریم ورک فراہم کر دیا ہے۔ لیکن وکلا اور عدلیہ کے تیور دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے اس ایکٹ کو بھی غیر موثر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔راقم کے خیال میں اگر عدلیہ نے اس ایکٹ کے خلاف کوئی ا سٹے دیا تو یہ ایک بدقسمتی ہوگی اورایک غریب آدمی جو پہلے ہی مہنگائی،بدامنی سے تنگ ہے اسے ریلیف دینے کے حکومتی اقدامات میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔