مفتی شمائل کا جاوید اختر کے ساتھ خدا کے وجود پر مناظرےکی ایسے دھوم مچی ہے جیسے کوئی فلم سُپر ہِٹ ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے میں اِس پر سیر حاصل تبصرہ کر چکا ہوں لیکن جیسے لذیذ کھانے کے بعد پیٹ بھر جاتا ہے مگر نیت نہیں بھرتی تو ویسا ہی حال اپنا بھی ہے۔ سو، اِس تحریر کو آپ گزشتہ سے پیوستہ ہی سمجھیں۔
مفتی شمائل نے بحث کے آغاز میں ہی اعلان کر دیا کہ ہم خدا کے وجود کو حِسّیات کی مدد سے یا سائنس کی رو سے ثابت نہیں کر سکتے لہٰذا ہمارے پاس سوائے منطق اور دلیل کے اور کوئی دوسرا طریقہ نہیں جس سے خدا کا وجود ثابت کیا جا سکے۔ وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ چونکہ خدا ہماری حِسّیات سے ماورا ہے اور سائنس کی گرفت میں بھی نہیں آ سکتا لہٰذا یہ دونوں ذرائع اُس کے وجود کو ثابت کرنے کیلئےاستعمال نہیں کیے جا سکتے۔ مفتی صاحب یہ بھول گئے کہ دراصل وہ خدا کی مابعد الطبعیاتی صفات بیان کر رہے ہیں اور صفات اُس وقت بیان کی جا سکتی ہیں جب ہستی کا وجود ثابت ہو جائے۔ اِس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ اُس نے پانی نہیں دیکھا اور نہ ہی وہ پانی جیسی کسی حقیقت کو مانتا ہے تو جواب میں دوسرا شخص کہے کہ میں پانی کا وجود ثابت کروں گا مگر نہ تم اسے چھو کر دیکھ سکتے ہو، نہ پی کر اور نہ ہی اُس کا لیبارٹری میں ٹیسٹ کروا سکتے ہو کیونکہ میرے ثابت کیے ہوئے پانی کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ اسے چکھا نہیں جا سکتا لہٰذا میں صرف منطق کی رُو سے پانی کا وجود ثابت کروں گا۔ ایسی صورتحال میں ’پانی‘ کو منطقی طور پر تو شاید ثابت کیا جا سکے مگر حقیقت میں یہ ممکن نہیں ہوگا۔ دوسری بات مفتی صاحب نے اچھی کہی کہ وہ کھلے دل کے ساتھ اِس مناظرے میں آئے ہیں اور اگر جاوید اختر نے کوئی ٹھوس دلیل دی تو وہ اُس پر ضرور غور کرینگے۔ لیکن انہوں نے کوئی Falsification test نہیں بتایا، یعنی ایسی کون سی دلیل ہوگی کہ مفتی صاحب قائل ہو جائیں گے اور نہ ہی ایسا کوئی ٹیسٹ جاوید اختر نے بتایا کہ وہ کس طرح کی دلیل کے ساتھ خدا کا وجود تسلیم کر سکتے ہیں۔ مفتی شمائل کا سارا زور اِس بات پر تھا کہ چونکہ کائنات ایک ’ممکن الوجود ہستی‘ ہے اور اپنے وجودکیلئے ’واجب الوجود ہستی‘ کی محتاج ہے لہٰذا خدا ہی وہ ناگزیر ہستی ہے جسے ماننے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اِس دلیل میں کئی جھول ہیں، کچھ کا ذکر پہلے کر چکے ہیں۔ مثلاً یہ دلیل کہتی ہے کہ کائنات اِس لیے ممکن الوجود ہے کیونکہ وہ اپنے وجود کیلئے کسی ناگزیر ہستی کی محتاج ہے، تو یہی بات خدا پر بھی منطبق کی جا سکتی ہے کہ اگر کائنات وجود میں نہ آتی تو خدا کے وجود کی بحث ہی کیونکر ہوتی؟ دوسری بات، بالفرض محال اگر یہ دلیل درست بھی مان لی جائے تو بھی محض منطقی طور پر کسی خالق کا وجود ثابت ہوتا ہے کسی ذاتی خدا کا یا ایسے خدا کا وجود ثابت نہیں ہوتا جسکی خصوصیات مفتی صاحب نے بیان فرمائی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس گنجلک سوال کا جواب کیا ہے؟
اِس مسئلے پر معتزلہ نے سیر حاصل اور تسلّی بخش بحث کی ہے۔ معتزلہ کے نزدیک خدا کی ذات محض ایک وجدانی حقیقت نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے عقلِ سلیم کے بغیر کماحقہ سمجھنا ممکن نہیں۔ اِن کے نزدیک خدا ہر مادی صفت سےپاک ہے، وہ خداکی وحدانیت میں کسی بھی قسم کی ’ملاوٹ‘ کے قائل نہیں، خدا کی صفات جیسے علم، قدرت، بصارت، اُس کی ذات سے الگ اور قدیم ہیں۔ معتزلہ نے قرآنی آیات کی تعبیر میں تاویل کا سہارا لیا تاکہ خدا کی ذات کو انسانی مشابہت سے الگ رکھا جا سکے۔ قرآن میں جہاں اللّٰہ کے ہاتھ، چہرے یا عرش پر بیٹھنے کا ذکر ہے، معتزلہ ان کی ظاہری تشریح کے سخت خلاف تھے، اُن کے نزدیک ہاتھ سے مراد خدا کی قدرت یا نعمت ہے، چہرے سے مراد خدا کی ذات ہے اور عرش پر بیٹھنے سے مراد کائنات پر اس کا غلبہ اور اقتدار ہے۔ اُن کا فلسفہ یہ تھا کہ جو چیز مکان میں ہوگی وہ محدود ہوگی اور جو محدود ہوگی وہ خدا نہیں ہوسکتی۔ اِسی منطق کی بنیاد پر انہوں نے خدا کے دیدار کا انکار کیا تھا۔ اُن کا استدلال تھا کہ آنکھ صرف اسی چیز کو دیکھ سکتی ہے جو کسی سمت میں ہو، جس کا کوئی رنگ ہو اور جو مادی ہو۔ خدا چونکہ مادہ اور سمت سے پاک ہے، اس لیے نہ اسے دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے اور نہ آخرت میں۔ ان کے نزدیک خدا کا دیدار دراصل اُس کے قرب اور معرفت کا نام ہے۔
میری رائے میں معتزلہ کا اصل کمال مسئلہ جبر و قدر اور خیر و شر کی تفہیم تھا۔ معتزلہ کا استدلال تھا کہ اگر خدا انسان کو پیدا کرتا ہے اور پھر اُس کے اعمال بھی خود ہی تخلیق کرتا ہے اور پھر اُن اعمال پر انسان کو سزا دیتا ہے تو یہ سراسر ظلم ہے جبکہ خدا کی شان یہ ہے کہ وہ ظلم سے پاک ہے۔ خدانے انسان کو ارادہ اور قدرت عطا کر دی ہے اور انسان اپنے اعمال کا خود خالق ہے۔ خدا کے بارے میں ان کا یہ تصور اس قدر راسخ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ”خدا پر واجب ہے کہ وہ بندوں کے حق میں وہی کرے جو ان کیلئے بہترین ہو“۔ معتزلہ کا خدا ایک ایسا حکیم ہے جسکے احکامات منطق اور مصلحت پر مبنی ہیں، اُن کے نزدیک سچ بولنا اس لیے اچھا نہیں کہ خدا نے اِس کا حکم دیا ہے بلکہ سچ اپنی ذات میں اچھا ہے اور عقل اسے پہچان سکتی ہے، اسی لیے خدا نے اس کا حکم دیا ہے۔ خدا کا تصور ان کے ہاں ایک ایسے قانون ساز کا ہے جو آفاقی اور اخلاقی اصولوں کا پابند ہے جنہیں اُس نے خود وضع کیا ہے۔ یہ تصور، خدا کو ایک ایسی ہستی کے طور پرپیش کرتا ہے جو من مانے فیصلے نہیں کرتی بلکہ حکمت کے تحت نظام کو چلاتی ہے۔ جس صراحت کے ساتھ معتزلہ نے اِس مسئلے کی شرح کی ہے اُس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ جہاں تک بات خدا کے وجود کی ہے تو اِس بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد کا بیان سونے سے لکھنے کے لائق ہے کہ اسے ثابت نہیں کیا جا سکتا، یہ ایمان کا معاملہ ہے۔ اور رہی بات ملحدانہ نقطہ نظر کی تو جس قدر قطعیت کے ساتھ جاوید اختر اِس کے قائل ہیں وہ سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ جس سائنس کی مدد سے وہ یہ بات ’ثابت‘ کرتے ہیں کہ یہ کائنات تیرہ ارب سال پہلے از خود وجود میں آ گئی تھی تو یہی دلیل خدا کے حق میں بھی دی جا سکتی ہے کہ وہ بھی از خود وجود میں آ گیا تھا۔ پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟