سندھ امن کی دھرتی ہے اور صدیوں سے سب کی پناہ گاہ رہی ہے جو یہاں آیا یہاں کا ہوگیا اور سندھ کو اپنی ماں سمجھ کر اسکی عزت اور آبرو کیلئے اپنی جان قربان کرنے سے بھی نہیں کترایا، ایسی سینکڑوں مثال دی جاسکتی ہیں۔ آریا لوگ یہاں آئے اور یہاں کے ہوکر رہ گئے ۔مغل حاکم بن کر آئے مگر شہنشاہیت ختم ہونے کے بعد سندھ کے سپوت بن کر رہے۔ یہ تالپور کون تھے جو سندھ کی خاطر انگریزوں سے لڑے یہ بھی تو ایک مرحلے پر باہر سے آئے تھے ان میں سےکسی نے سندھ سے غداری نہیں کی یہ سب سندھ کو اپنی ماں سمجھتے رہے اور سندھ کے حقیقی سپوت کا کردار ادا کرتے رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں سندھ اور دریائے نیل کی تہذیب کو دنیا کی مہذب ترین تہذیبیں قرار دیا جاتا رہا ہے۔
1947ء میں جب برصغیر تقسیم ہوا اور دو ملک ہندوستان اور پاکستان وجود میں آئے تو دونوں طرف کے انسان دشمن وحشیوں نے اپنے اپنے علاقے کی اقلیتوں کو گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملک میں پناہ لینے پر مجبور کیا‘ سندھ میں آنے والے ان پریشان حال لوگوں کی اکثریت کا تعلق ہندوستان کے علاقوں یو پی، سی پی، کاٹھیا واڑ،راجستھان اور کچھ دیگر علاقوں سے تھا جہاں تک کاٹھیا واڑسے آنے والے مہاجرین کا تعلق ہے تو ان میں اکثر کا اصل وطن سندھ کا علاقہ ٹھٹھہ وغیرہ تھا۔ وہ اس زمانے میں اس علاقے کے ابتر حالات کی وجہ سے یہ علاقہ چھوڑ کر ہندوستان چلے گئےتھے۔ سندھ کے قومی شاعر شیخ ایاز انکو ’’سندھ کے گمشدہ بیٹے‘‘ قرار دیتا تھا۔ راجستھان سے آنے والے بھی سندھ کیلئے غیر نہیں تھے کیونکہ ماضی میں ان میں سے اکثر علاقوں تک سندھ پھیلا ہواتھا۔ شاہ لطیف نے اپنے اشعار میں ان علاقوں اور وہاں کے لوگوں کا بڑی محبت سے ذکر کیا ہے البتہ یوپی اور سی پی سے آنے والے مہاجروں کیلئے سندھ ایک نیا علاقہ تھا مگر سندھ کے لوگوں نے ان مہاجر بھائیوں اور بہنوں کو سندھ کیلئے گنگا جمنا تہذیب کا تحفہ تصور کرتے ہوئے انکی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ سندھ کے امیر تو کجا متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں نے بھی ان پریشان حال بھائیوں کیلئے جو ٹرین کے ذریعے سندھ آرہے تھے اپنے گھروں میں کھانا پکا کر ٹرین میں پہنچایا۔ انہیں نہ فقط شہروں بلکہ دیہات میں بھی گھر مہیا کئے گئے اور سندھ کے لوگوں نے کوشش کی کہ ہندوستان سے آئے ان بھائیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ اب ان کو یہاں آئے کافی عرصہ گزر چکا ہے اب وہ بھی سندھ کے سپوت ہیں اب بھی اگر کوئی ان کو مہاجر کہے تو کیا یہ ان کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟ اب ان میں سے پتہ نہیں کتنے لوگ انتقال کے بعد سندھ کی گود میں سو رہے ہیں اس طرح وہ سندھ دھرتی کا حصہ ہوچکے ہیں، انکے جن بچوں نے سندھ دھرتی پر جنم لیا ہے کیا وہ سندھ کے سپوت نہیں ہیں؟ ان کو مہاجر کہنا انکے جذبات کو مجروح کرنے کے برابر نہیں ہے؟ ان کا سندھ دھرتی پر جو حق بنتا ہے وہ دوسرے سندھیوں سے کسی صورت بھی کم نہیں؟
تو کیوں کچھ ’’مہربان‘‘ وقت بوقت ہمارے ان بھائیوں کو مہاجر ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔یہاں ان کی مادری زبان اردو ہے تو کیا ہوا؟ اصل سندھیوں نے جب دیکھا کہ ہمارے یہ بھائی سندھی نہیں بول سکتے تو سندھی بڑے شوق سے ان کی زبان اردو میں ان سے بات چیت کرتےرہے ہیں۔شاید یہ مسئلہ بھی نہ ہوتا اگر سندھ یونیورسٹی کو کراچی سے بیدخل نہ کیا ہوتا یا کراچی کو سندھ سے الگ کرنیوالی تحریک کی مخالفت کرنے پر سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کو حکومت سے بیدخل کرکے اسے ڈس کوالیفائیڈ نہ کیا ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کھوڑو کی حکومت نے سندھی بولنے والوں اور اردو بولنے والوں کو قریب لانے کیلئے اردو بولنے والوں کیلئے سندھی پڑھنا لازمی قرار دیا تھا مگر مرکزی حکومت نے اردو بولنے والوں کیلئے سندھی پڑھنے کی شرط ختم کردی۔ دیکھا جائے تو یہ اردو بولنے والوں کے ساتھ اور سندھی زبان کیساتھ زیادتی کی گئی مگر سندھیوں نے اس کا بھی برا نہیں منایا اور شہروں‘ دیہات اور محلوں میں سندھی بولنے والے اور اردو بولنے والے ایک دوسرے کیساتھ پیار اور محبت سے رہنے لگے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درمیان میں کچھ عناصر کی طرف سے گڑ بڑ کی گئی مگر سندھ اس کو بھی پار کرکے آگے بڑھ گیا کیونکہ سندھ کے پانی اور مٹی میں محبت اور انسان دوستی کا حصہ کافی زیادہ ہے۔ سندھ صوفی ازم کی درسگاہ رہا ہے جسکے دوسری معنیٰ انسان دوستی ہے سند ھ کے لافانی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی تو یہ درس دے کرگئے ہیں کہ ’’ہوچو تئی توں مہ چئہ واتؤں ورائے‘‘ ’’اب اگرائی جو کرے خطا سوکھائے‘‘ اس کے اردو معنیٰ ہیں ’’اگر آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کرے تو اس کا کوئی جواب نہ دوجو بھی زیادتی کرنے کے سلسلے میں پہل کرے گا تو تکلیف آخر اسے ہی ہوگی‘‘۔ اس ساری درس و تدریس کے باوجود ہمارے کچھ ’’مہربان‘‘ وقت بہ وقت بالواسطہ طور پر یا بلاواسطہ سندھ کی تقسیم کی بات کرتے رہے ہیں۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ ہمارے ’’مہربان‘‘ اور تو اور سندھ کی ثقافت کی بے مثال اجرک کی بھی توہین کرنے سے نہیں رکتے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اجرک سندھ کی ثقافت کا ایک اعلیٰ اور غیر معمولی نشان ہے مگر سندھ کے عوام کو اس وقت انتہائی شدید تکلیف پہنچی جب حال ہی میں جماعت اسلامی نے ایک جلوس نکالا جس میں ایک گدھے کو بھی ساتھ لائے جس پر اجرک کا نشان لگایا تھا یہ بہت افسوسناک طرزعمل ہے۔