کراچی (محمداسلام) پیش گوئی کرنا ہر ایرے غیرے نتھے خیرے کے بس کی بات نہیں اس کیلئے علم نجوم پر دسترس ہونا ضروری ہے، اس کے باوجود بیشتر ماہرین علم نجوم ہمیں بآسانی فٹ پاتھوں پر دستیاب ہوتے ہیں۔ پیش گوئیوں کیلئے طوطے کی فال بھی فٹ پاتھوں پر ہی نکالی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیںجو دوسروں کے بارے میں پیش گوئیاںبتاتے ہیں اور خود اپنے بارے میں انہیںکچھ نہیں پتہ ہوتا،اسی لئے فٹ پاتھوں پر ہی ان کا ڈیرہ ہوتا ہے،ان کی دیکھا دیکھی سیاست میں بھی پیش گوئیوںکا آغاز ہوا، پیر پگارا، منظور وسان اور شیخ رشید کی پیش گوئیوںکو ہم قابل تذکرہ تصور کرتے ہیں،پیر پگارا اور منظور وسان کی بعض پیش گوئیاں درست بھی ثابت ہوئیں، پیر پگارا کے تو کیا کہنے، پیش گوئیاںلیکر آنےوالےان کے خاص آدمی ہوتے تھے، اس لئے عموماً درست ہوجاتی تھیں۔ لیکن جہاں تک تعلق ہے شیخ رشید کی پیش گوئیوںکا تو موجودہ نواز حکومت کے دوران کی گئیں ان پیش گوئیوںمیں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں۔شیخ رشید کی پیش گوئیاںمحکمہ موسمیات سے بھی بدتر ثابت ہوئیں، میرا خیال ہے ٹی وی چینلز کو اس موضوع پر بھی ایک پروگرام کرنا چاہئے۔ ویسے حکیم شرارتی نے بتایا ہے کہ وہ شیخ رشید کی گذشتہ 3برس کی پیش گوئیاں جمع کریں گے اور کوئی دریافت کرے گا تو وہ بتائیں گے کہ میں شیخ رشید کی پیش گوئیوںپر پی ایچ ڈی کررہا ہوں۔ میری ایک تجویز یہ ہے کہ حکومت کے خاتمے کی اتنی پیش گوئیاںکرنے پر شیخ رشید کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جائے۔ میں نے غلط پیش گوئیوںپر حکیم شرارتی سے دریافت کیا وہ گویا ہوئے کہ شیخ صاحب کے پاس کوئی چڑیا نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ غلط اطلاعات فراہم کرتی ہے لہٰذا انہیں پیش گوئیوںسے پہلے اپنے ذرائع چیک کرنے چاہئیں۔ پاکستان میں سیاسی پیش گوئیوںکا چلن خاصا پرانا ہے، اب علم سیاسیات کے ماہرین کوسیاسی پیش گوئیوںسے منسوب علیحدہ مضمون پڑھانے پر غور کرنا چاہئے اور ان میں شیخ صاحب کی پیش گوئیوںپر بھی سیرحاصل بحث ہونی چاہئے۔ بہرحال اس طرز سیاست پر میرتقی میر کا یہ شعر ہی پیش کرسکتے ہیں کہ
دیکھ تو دل کہ جان سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے