• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیریوں کے ’’دل و دماغ جیتنے‘‘ کا اعلانیہ ایجنڈا لے کر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی گزشتہ ہفتے ایسے عالم میں اپنے پہلے سرکاری دورے پر سری نگر پہنچے کہ حریت کانفرنس اور دوسری آزادی پسند تنظیموں کی کال پر ان کی آمد کے خلاف پورے مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال تھی اور لوگوں نے گھروں پر سیاہ جھنڈے لہرا رکھے تھے۔ دارالحکومت سری نگر میں جہاں وزیراعظم کا جہاز اترا تعلیمی ادارے اور بازار بند تھے۔ سڑکیں سنسان اور گلیاں ویران تھیں۔ پھر بھی کٹھ پتلی انتظامیہ نے احتجاجی مظاہروں کے خوف سے شہر میں کرفیو لگادیا۔ لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کے لئے فورسز کی گیارہ سو ہنگامی چوکیاں قائم کر دی گئیں جو پہلے سے موجود چیک پوسٹوں کے علاوہ تھیں۔
پولیس نے شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی تلاشی کے لئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں اور فوج نے پورے ریجن کی اہم شاہراہوں کو اپنے محاصرے میں لے رکھا تھا۔ شہر کے اندر موبائل سروس یہاں تک کہ ہسپتالوں کی ایمبولینس سروس بھی بند کر دی گئی کشمیریوں کے دل جیتنے کے لئے یہی ’’مراعات‘‘ کیا کم تھیں کہ اس روز لوگوں کو جامع مسجد سری نگر میں داخلے سے بھی روک دیاگیا۔ یوں مسلمان رمضان المبارک کا پہلا جمعہ پڑھنے کی سعادت سے محروم رہے۔ مزید ’’احتیاط‘‘ کے طور پر سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور دیگر حریت رہنمائوں کو گھروںمیں نظربند کردیاگیا۔ وزیراعظم کی حفاظت پر مامور بلیک کیٹ فوجی کمانڈوز دن بھر شہر میں گشت کرتے رہے۔ اس کے باجودکئی مقامات پر لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور بھارتی قبضے کے خلاف اور آزادی کے حق میں مظاہرے کئے۔ یٰسین ملک کی ’’کشمیر چھوڑ دو تحریک‘‘ بھی جاری رہی۔ اس دوران فورسز سے جھڑپوں میں دونوجوان شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔
چند روز قبل ضلع پونچھ کی تحصیل مینڈھر میں تین نوجوانوں کو عسکریت پسندی کا الزام لگا کر شہید کیا جاچکا تھا۔ عوام اس کے خلاف بھی سراپا احتجاج تھے۔ پھر مقبوضہ کشمیر پر ہی کیا موقوف کشمیریوں کے خلاف تادیب و تعذیب کا یہ عمل پورے بھارت میں جاری ہے کیونکہ کشمیری جہاں بھی ہوتے ہیں اپنے مشن کو نہیں بھولتے یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ایشیا کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کے الزام میں میرٹھ کی سوامی دیو کا نند سبھرتی یونیورسٹی سے 67کشمیری طلبا کو نکال دیاگیا اور یوپی پولیس نے ان پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیا۔ اس کے علاوہ 130کشمیری طلباء کو یونیورسٹی کے ہوسٹل سے بھی خارج کر دیا گیا اور پانچ پانچ ہزار جرمانے کی سزا دی گئی۔ ساتھ ہی اس سال کسی کشمیری طالب علم کو یونیورسٹی میں داخلہ نہ دینے کااعلان کیا گیا۔ اسی طرح کے جرم میں شاردا یونیورسٹی یوپی کے 16کشمیری طلبا کو ہوسٹل سے نکال دیاگیا۔ میواڑیونیورسٹی راجستھان میں مقامی طلبا نے حملہ کرکے درجن بھر کشمیری طلبا کو زخمی کردیا اور پولیس تماشا دیکھتی رہ گئی۔
کشمیریوں کے دل جیتنے کے لئے اس طرح کی کارروائیاں اصل میں ڈوگرہ حکمرانوں کی پالیسی کا تسلسل ہیں۔ کشمیریوں کی نئی نسل کو اس سلوک کا کم ہی علم ہے جو ڈوگروں نے اہل کشمیر خصوصاً مسلمانوں سے روا رکھیں۔ آزادکشمیر میں تو جموں وکشمیر کی تاریخ ہی نہیں پڑھائی جاتی جس کی وجہ سے نوجوان نسل کی اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آخر ان کے بزرگوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت کیوں بلند کیا۔ اور وہ کیا محرکات ہیں جن کی بنا پر مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جنگ سرد نہیں ہوئی۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ہندو ڈوگرہ راجائوں کے ادوار میں مسلمانوں کی حالت شودروں سے بھی بدتر تھی کتا تو حلوائی کی دکان پر بیٹھ سکتا تھا مگر مسلمان قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا۔ عمررسیدہ ہندو عورتیں صبح سویرے دریائے توی سے نہا کر لوٹتیں۔ راستے میں کسی مسلمان کی نظرپڑجاتی تو وہ ناپاک ہو جاتیں اور دوبارہ نہاناپڑتا۔ ریاست میں ایسے کئی علاقے تھے جہاں اذان پرپابندی تھی۔ ہندوئوں کو سکھایا جاتا کہ مسلمان اذان میں انہیں گالیاں دیتے ہیں اس لئے اسے نہیں سننا چاہیے۔ اسلام کی تبلیغ پر پابندی تھی۔ کوئی ہندومسلمان ہوجاتا تو اس کی تمام جائداد بحق سرکار ضبط کرلی جاتی۔ مسلمان قتل کرکے تو بری ہو سکتا تھا مگر گائے ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتا تو اسے لازماً14سال قید بامشقت بھگتنا پڑتی۔ گائو کشی پر مسلمانوں کو جان سے نہ مارنا ہو تو ان کے کان اور ناک کاٹ دیئے جاتے۔ گلاب سنگھ کے جانشین رنبیر سنگھ نے ایک عورت کی زبان کٹوادی۔ ایک اور ملزم کو فاقوں سے مارا گیا اور لاش دریا میں بہا دی گئی۔ مسلمان ہندو کو قتل کرتا تو اسے سزائے موت دی جاتی۔ ہندو مسلمان کو قتل کرتا تو چند روپے جرمانہ دے کر چھوٹ جاتا۔
جرمانہ کی یہ رقم بھی سرکار خود وصول کرتی۔ ڈوگرہ راج کے بانی گلاب سنگھ نے تو ظلم و تعدی میں قدیم سلطنت روم کے حکمرانوں اور مغل بادشاہوں کو بھی مات دے دی جن کے محض چشم و ابرو کے اشارے پر ان کے مخالفین کو قتل کر دیا جاتا۔ آنکھیں نکال لی جاتیں، قلعے کی دیوار سے نیچے گرا دیا جاتا یا اندھے کنوئوں میں پھینک دیا جاتا۔ گلاب سنگھ نے خود ایک انگریز مورخ کو بتایا کہ جب وہ کسی شخص کو ڈرانا چاہتا ہے تو اس کی کھوپڑی کی کھال اتروانا شروع کرتا ہے۔
جونہی یقین ہوتا ہے کہ وہ مرجائے گا تو یہ کھال دوبارہ اس کے سر پر لگا دی جاتی ہے اور اسے رہا کر دیا جاتا ہے۔ ایک خانساماں پر مہاراجہ کو زہردینےکا شبہ ہوا۔ گلاب سنگھ نے حکم دیا کہ گردن کے اوپر سے اس کی کھال اتار دی جائے۔ سر کو بھونا جائے اور کھال دوبارہ لگا دی جائے۔
انگریز نے پوچھا کہ کیا وہ فوراًمرگیا۔ مہاراجہ نے جواب دیا۔ نہیں۔ کم بخت پھر بھی ایک ہفتہ زندہ رہا۔ کوئی فریادی اس کے پاس فریاد لاتا تو اسے مہاراجہ کو ایک روپیہ دینا پڑتا۔ مزدوروں گورکنوں حتیٰ کہ طوائفوں کی آمدنی پر بھی بھاری ٹیکس عائد تھا۔ بلتستان پر قبضہ کے بعد اس کے حکم پر وہاں کے سردار رحیم خان کو لوگوں کے ایک بڑے مجمعے میں لایاگیا۔
پہلے اس کےہاتھ، پھر زبان، ناک اور کان کاٹے گئے اور ہر بار رحیم کے کٹے ہوئے حصے پر ابلتا ہوا مکھن ڈالاگیا تاکہ خون بہنا بند ہو جائے۔ رحیم خان دودن بعد چل بسا۔ نریندر مودی کشمیریوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں ڈوگرہ راج کا تسلسل ختم کر کے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دینا ہو گا۔ یہ بات ان کی سمجھ میں جتنی جلد آ جائے اتنا ہی بھارت کیلئے بہتر ہو گا، اس سے کشمیری عوام سکھ کا سانس لیں گے اور برصغیر میں پائیدار امن کا خواب پورا ہو گا۔
تازہ ترین