• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعدازاں فیلڈ مارشل ایوب خان کے نفس ناطقہ اور دانشور بیوروکریٹ الطاف گوہر مرحوم کراچی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے اور حسین شہید سہروردی مرحوم پاکستان کے وزیراعظم 25دسمبر یوم قائداعظم ؒکے موقع پر مسلم لیگ نے جہانگیر پارک میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے اجازت طلب کی جو دیدی گئی۔ برسراقتدار عوامی لیگ نے اس پارک میں جلسہ کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ مسلم لیگ کو پہلے ہی اجازت مل چکی ہے چنانچہ وزیراعظم نے یہ اجازت نامہ منسوخ کرنے اور خود جہانگیر پارک میں خطاب فرمانے کی بجائے 24دسمبر کو ڈھاکہ جانے کا فیصلہ کیا اور الطاف گوہر سے کہا ’’کراچی میں حکمران جماعت کیلئے جلسہ کرنے کی کوئی جگہ نہیں رہی۔ اس لئے آپ کی وجہ سے وزیراعظم کو شہر چھوڑنا پڑ رہا ہے‘‘۔
فارسی کا ایک شعر ہے ’’تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را +گاہے گاہے باز خواں ایں قصئہ پارینہ را‘‘۔کیا فراخدل ، معاملہ فہم اور دور اندیش سیاستدان و حکمران تھے اور کیسے قاعدے قانون پر عمل کرنے اور حکمرانوں سے درگزر کی امید رکھنے والے بیوروکریٹ۔ مگر اب ہماری قسمت میں کیا ہے ؟ عمران خان نے 14 اگست کو لانگ مارچ کا اعلان کیا تو نادیدہ خوف کا شکار حکمرانوں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مشیروں اور گربہ صفت بیوروکریٹس کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور انہوں نے ہجوم کا مقابلہ ہجوم سے کرنے کی شاہکار حکمت عملی وضع کر کے 14اگست کو ڈی چوک پر قبضے کا فیصلہ کر لیا۔
الطاف گوہر تو کیا میاں صاحب کے ارد گرد ان دنوںکوئی سردار محمد چوہدری، ڈاکٹر صفدر محمود اور حاجی محمد اکرم بھی نہیں، جو وزیراعظم کو 14 اگست 1986ء کی تاریخ یاد دلا سکے۔ حسین حقانی ٹائپ شائد بہت سے ہیں جو اپوزیشن کی متاثر کن عوامی مہم کا مقابلہ ذرائع ابلاغ پر کارناموں کی تشہیر کیلئے اشتہاری مہم کے ذریعے کرے۔ اخبارات کے صفحات (ان دنوں آزاد الیکٹرانک میڈیا کا وجود نہ تھا)کو اشتہارات سے بھر کر اپوزیشن کے بیانات اور سرگرمیوں کیلئے کوئی جگہ باقی نہ چھوڑنے اور اسلام آباد کے ڈی چوک کو مسلم لیگی کارکنوں سے بھر دینے (تاکہ تحریک انصاف کے کارکنوں کیلئے کوئی جگہ باقی نہ رہے) کا مشورہ دے رہے ہیں۔
14اگست 1986ء کو اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ نے مینار پاکستان پر جلسہ عام کا اعلان کیا۔ میاں غلام حیدر وائیں اس تجویز کے محرک تھے اور میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب، ایم آر ڈی نے جھٹ سے اس مقام پر اجتماع کا اعلان کر دیا اور پنجاب حکومت کیلئے مشکل پیدا کر دی۔ مرنجاں مرنج اور سیاسی حرکیات سے واقف محمد خان جونیجو نے محاذ آرائی سے بچنے کیلئے مسلم لیگ کاجلسہ عام منسوخ کر دیا۔ مگر ایم آر ڈی ڈٹی رہی اور پھر موچی دروازے کے تاریخی باغ میں جلسے کا فیصلہ کیا۔ حکومت پنجاب نے چوہدری سردار محمد کی رائے کے برعکس ایم آر ڈی کے اجتماع پر دفعہ 144 کے تحت پابندی لگا دی اور محترمہ بینظیر بھٹو کا پنجاب میں داخلہ ممنوع قرار دے کر کراچی میں گرفتار کر لیا۔ اس کے باوجود ایم آر ڈی کے کارکنوں نے پولیس و انتظامیہ کی کوششیں ناکام بنا دیں اور موچی دروازے کی طرف بڑھنے والے ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے گولی چلانا پڑی۔ چار لاشیں گریں اور نو زائیدہ جمہوریت کا چہرہ بے نقاب ہو گیا۔
اس سال حکومت نے 14اگست کو جشن آزادی کے طور پر منانے کا مستحسن فیصلہ کیا ۔مگر غلط وقت پر کئے گئے اس فیصلے کو عوام نے لانگ مارچ روکنے کی سیاسی تدبیر اور ملک میں سیاسی محاذ آرائی بڑھانے کی سعی ناکام سے تعبیر کیا۔ آخر حکومت کو جشن آزادی لانگ مارچ کے اعلان کے بعد ہی کیوں یاد آیا؟ ۔جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور سے یوم آزادی پورے جوش و خروش اور عوامی انداز میں منایا جاتا ہے۔ لوگ پاکستانی پرچم اپنے گھروں، دفتروں ، دکانوں ، گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں حتیٰ کہ گدھا گاڑیوں اور ہتھ ریڑھیوں پر لہراتے ملی ترانے گاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں رونق کچھ ماندپڑی مگر جوش و جذبہ برقرار رہا۔ اب اگر حکومت اس شاندار روائت کا احیاء کرتی ہے تو کس کافر کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ چشم ماروشن دل ماشاد مگر ایوان صدر یا وزیراعظم ہائوس کے بجائے ڈی چوک میں عوامی تقریب اور فوجی پریڈ کا کیا مقصد ہے ؟
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے فوجی پریڈ کی شاندار تقریب 23 مارچ کو ہوا کرتی تھی ۔ جو پرویز مشرف کے دور میں بار بار منسوخ ہوئی جبکہ 14 اگست قومی پرچم لہرانے ، ملی نغمے اور ترانے مل جل کر گانے اور اس یوم سعید کی عظمتیں اور کارکنان تحریک پاکستان کی قربانیاں نوجوان نسل کے کانوں میں انڈیلنے کا دن ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین سے بھونڈے انداز میں نمٹنے اور انہیں اپنی طاقت سے مرعوب کرنے کا یوم نہیں۔ ایک اہم سوال مگراور بھی ہے۔
حکومت کی طرف سے ڈی چوک پر عوامی نوعیت کی ایسی تقریب کا انعقاد جس میں صدر، وزیراعظم، وفاقی وزراء، مختلف ممالک کے سفیر، سروسز چیفس اور سیاسی کارکن شریک ہوں گے ۔کیا دہشت گردی کے خطرات سے دو
چار نہ ہو گی ؟اگر نہیں تو پھر یہ دلیل تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور ممکنہ دھرنے کے حوالے سے کیونکر کار گر قرار پائے گی اور شہر کو فوج کے سپرد کرنے کے بعد حکومت کی ناکامی کا تصور پروان چڑھے گا یا اپنے سیاسی مخالفین سے سیاسی انداز میں نمٹنے کی صلاحیت سامنے آئے گی؟کیا یہ فوج کو بطور ادارہ مشکل میں ڈالنے کے مترادف نہیں کہ وہ مسلم لیگ کے ہجوم کو تو ڈی چوک پر پہنچنے دے مگر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے قافلوں کو بزور طاقت روک دے۔ یہ جمہوریت کو بچانے کی سعی ہے یا بچی کھچی جمہوری ساکھ کو دائو پر لگانے کی احمقانہ تدبیر ؟
کیا ہمارے حکمران اور ان کے داناوبینامشیر 1977ء میں تحریک نظام مصطفیٰ ؐ کا مقابلہ کرنے کیلئے ملک غلام مصطفیٰ کھر کی طرف سے پیپلزپارٹی کے جلوسوں کا انجام بھول گئے ہیں اور انارکلی میں فوج کو احتجاجی مظاہرین کے سامنے لا کر کھڑا کرنے کے مضمرات سے قطعی ناآشنا و بیگانہ ہیں۔ اپنے کارکنوں کو پولیس، رینجرز اورفوج کی حفاظت میں ڈی چوک لا بٹھانے کی اس اشتعال انگیز مضحکہ خیز جوابی حکمت عملی سے اپوزیشن اپنی حکمت عملی تو شائد تبدیل نہ کرے البتہ اس کے کارکنوں کے جوش و جذبہ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور عمران خان کو ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل کر لانگ مارچ کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے کیونکہ وہ صرف اس طرح اپنی احتجاجی تحریک کو فیصلہ کن بنا سکتے ہیں۔
اگر عمران خان 14 اگست کو لاہور سے نکلے ، 15اگست کی شام کو اسلام آباد پہنچے تو کیا مسلم لیگی کارکن اس وقت اسلام آباد میں قیام پذیر ہوں گے؟ اگر ہوئے تو بڑے فساد اور ہنگامے سے بچنے کیلئے فوج کی مداخلت ضروری نہیں ہوگی؟ کیا حکمران یہی چاہتے ہیں حالانکہ دانشمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ حکومت صرف عمران خان نہیں ڈاکٹر طاہرالقادری کو مذاکرات اور مفاہمت پر آمادہ کرے۔ خواجہ آصف، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ اور رانا مشہود کی زبا ن بندی اور اپوزیشن کی جائز شکایات کا فوری ازالہ جلتی آگ کو بجھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور کابینہ کے علاوہ پارلیمنٹ کو جھاڑ جھنکار سے پاک کرنے کی موثر یقین دہانی عوام کی محرومی، مایوسی، بے چینی اور ہیجان کو کم کر سکتی ہے۔
جو نظام عوام کو روٹی، چھت، کپڑا، چادر، چار دیواری کا تحفظ ، انصاف، روزگار ، تعلیم، صحت اور عزت نفس فراہم نہ کر سکے اس پر آمریت کا لیبل لگا ہو یاجمہوریت کا بہر صورت قابل نفرت ہے اوراٹھا کر پھینک دینے کے قابل۔ عوام کو اچھی حکمرانی درکار ہے۔ جمہوریت کے نام پر غلیظ، آدم خور، طبقاتی نظام نہیں جوا ن دنوں رائج ہے۔ یہ اچھی حکمرانی بذریعہ انتخاب آئے،بحیلہ لانگ مارچ یا بنام انقلاب۔ عوام کو آم کھانے سے غرض ہے، گٹھلیاں گننے سے نہیں۔
تازہ ترین