• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں گلو بٹ کے کرتوت اور پولیس کی پشت پناہی اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ ریاست اوراس کے ادارے ابھی تک طرز کہنہ کے اسیر ہیں جبکہ معاشرہ بہت آگے جا چکا ہے۔ اگر پولیس کے افسران تھوڑا سا بھی سوچتے تو ان کو یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی کہ ان کا ہر عمل کیمرے کی آنکھ سے دیکھا جا رہا ہے اور ان کا پورا پرآپریشن عوام کی نظروں میں ہے۔ لیکن پولیس پچاس سال پہلے والے انداز فکر پر چل رہی تھی اور انگریز کے دور کے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے گر استعمال کرتے ہوئے اپنے ٹاؤٹ استعمال کر رہی تھی۔ پاکستان اور اس جیسے بہت سے ملکوں کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ سوا سائٹی بہت جدید ہو چکی ہے جبکہ ریاست روایتی انداز سے آگے نہیں بڑھ رہی۔پاکستان کا تو ماضی بھی اس کا تعاقب کر رہا ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو ہی لیجئے ۔ پچاس سال پہلے دیہاتوں اور چھوٹے قصبات میں بجلی کی فراہمی نہیں ہوا کرتی تھی، عوام اس کی توقع بھی نہیں کرتے تھے۔ اب جبکہ بجلی کی تاریں گاؤں گاؤں پہنچ چکی ہیں تو لوڈ شیڈنگ سے شہری علاقے ہی نہیں بلکہ دیہات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ بلکہ اب پورا نظام پیداوار طرز جدید پر مشینی ہو چکا ہے اور بجلی کی فراہمی ضرورت بن چکی ہے۔ مثلاً اب دیہی ترکھان بھی بجلی کی مشینوں پر فرنیچر اور دوسرا سامان تیار کرتے ہیں اسی طرح لوہار اور دوسرے دستکار بھی بجلی کی مشینوں سے کام چلاتے ہیں۔ حتی کہ اب لکڑی کی متھنی (مدھانی) کی بجائے بجلی پر چلنے والے آلوں سے دودھ سے مکھن نکالا جاتا ہے۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ کس طرح سے نظام پیداوار مشینی ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ضرورتیں بھی تبدیل ہوتی گئی ہیں۔
سیاسی معاشیات کے اصولوں کے مطابق جب نظام پیداوار تبدیل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ معاشرے کی ہیئت ترکیبی بھی بدل جاتی ہے۔ پرانے طبقات کی جگہ نئے طبقات لے لیتے ہیں جن کے لوازمات زندگی پہلے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ یہ نئے طبقات سیاست میں بھی اپنا اظہارکرتے ہیں اور ریاستی طاقت کے روایتی مروجہ ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ریاستی ادارے تبدیلی کے عمل کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کریں تو پھر پر تشدد تبدیلی کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ تبدیلی آمریت کی شکل میں سامنے آتی رہی ہے۔
پاکستان میں ریاست روز اول سے ہی بہت پس ماندہ تھی۔ ریاستی اداروں کوجمہوری طرز پر چلانے کے لئے شہری درمیانہ طبقہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ پیشہ ور شہری طبقات ہندئووں اور سکھوں پر مشتمل تھے جو قیام پاکستان کے وقت ہندوستان چلے گئے۔قیام پاکستان کے بعد شہری پیشہ ور طبقات نہ ہونے کے برابر تھے لہٰذا ریاستی اداروں پر جاگیردارانہ کنٹرول تھا۔ ملک میں صرف فوج ایسا ادارہ تھا جو کہ جدید بنیادوں پر منظم تھا۔ اس لئے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ دہائی بھر گزرنے کے ساتھ 1958میں آمرانہ حکومت قائم ہو گئی۔ یہ بات درست ہے کہ اگر مارشل لا کا نفاذ نہ ہوتا اور جمہوریت کو چلنے دیا جاتا تو ملک کی صورت حال مختلف ہوتی۔ لیکن تاریخ میں ’’اگر‘‘ یوں ہوتا تو یہ ہوتا، جیسے جملے بے معنی ہیں۔ تاریخ میں زیادہ اہم یہ ہے کہ یوں ہوا تو پھر یوں ہوا۔ اور ہوا یہ کہ شہری درمیانے طبقوں کی کمزور حالت کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا تھا اسے آمروں نے پر کیا۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بار بار درمیانے طبقات نئی جمہوری ریاست کو تخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر بار صورت حال کسی آمر کی مداخلت پر منتج ہوتی ہے۔
پاکستان میں ریاست کو جمہوری بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے پہلا سنجیدہ چیلنج 1968میں پیپلز پارٹی کی شکل میں سامنے آیا۔ باوجود اس کے اس کی رہنمائی ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں تھی جو خود جاگیردار تھے لیکن یہ بنیادی طور پر درمیانے طبقے کی تحریک تھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور اور اس کی بنیادی جہت متعین کرنے میں درمیانے طبقے کے دانشوروں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ چونکہ ریاستی ادارے اپنا کردار تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے 1969میں یحییٰ خان نے دوسرا مارشل لا نافذ کر دیا ۔ پاکستان کے دولخت ہونے کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت قائم ہوئی جس نے سیاسی اور سماجی روایتوں کو بدلنے کی کوشش کی ۔ اس کے رد عمل میں قومی اتحاد نے ملک میں ایسا پر تشدد ماحول پیدا کیا کہ ایک بار پھر جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ پیپلز پارٹی کا انقلاب نما دور بنیادی تبدیلیوں کی ایک کوشش تھی جس کے جواب میں مذہبی اور روایتی سیاسی طاقتوں نے ردانقلاب کا ایجنڈہ اپنایا۔ رد انقلاب کا یہ دور ضیاء الحق سے لے کر جنرل مشرف کے زمانے تک محیط ہے ۔ اس میں بنیادی تبدیلی آزاد عدلیہ کی تحریک سے شروع ہوئی اور جمہوری دور کا آغاز ہوا ۔اب ایک بار پھر جمہوری نظام نازک دور سے گزر رہا ہے۔بظاہر لگتا ہے کہ تاریخ ایک دائرے میں گھومتی ہوئی اپنے آپ کو دہرا رہی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے پچھلی چار دہائیوں میں معاشرے کی ہئیت ترکیبی بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ ستّر کی دہائی کا مختصر درمیانہ طبقہ اب کافی وسیع ہو چکا ہے۔ نہ صرف معاشی تبدیلیوں سے سماج میں جدید رجحانات نے جنم لیا ہے بلکہ پیشہ ور شہری طبقات کی وہ کمی تقریباً پوری ہو گئی جو تخلیق پاکستان کے وقت ہندووں کی نقل مکانی کی وجہ سے پیدہوئی تھی۔ اب کافی حد تک بہت بڑا درمیانہ طبقہ پیدا ہو چکا ہے جو ریاست کی جدید جمہوری طرز پر تشکیل کرنا چاہتا ہے۔ آزاد عدلیہ کے لئے عوامی تحریک اسی پنہاں تمنا کی عکاس تھی۔ اسی تناظر میں یہ بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ میں بھی جمہوری ریاست کے قیام کے حق میں فکری تبدیلی آئی ہو : آخر کار اس میں پایا جانے والا شعور ہی ہوتا ہے جو اسے سویلین معاملات میں در اندازی سے باز رکھتا ہے وگرنہ دنیا کی ہر اسٹیبلشمنٹ اپنے ملک کے نظام کو قبضے میں لے سکتی ہے۔
اس وقت عمران خان اور مولانا طاہر القادری بھی نئے پیدا ہونے والے طبقات کی عکاسی کر رہے ہیں۔ یہ تو حقیقت ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں ابھی تک درمیانے طبقے کو وہ حصہ نہیں ملا جو ہندوستان کے ریاستی امور میں حاصل ہے۔ منموہن سنگھ ہوں یا نریندر مودی ، دونوں کا تعلق درمیانے طبقے سے ہے۔ اس کے الٹ آصف علی زرداری ہوں یا میاں نواز شریف دونوں صاحب ثروت طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ علامتیں ہیں کہ کس طرح پاکستان میں ابھی تک درمیانے طبقے کو ریاستی امور میں وہ حیثیت حاصل نہیں ہوئی جو عام طور پر جمہوری معاشروں کا تقاضہ ہے۔
مولانا طاہر القادری کی انقلابی یلغار ہو یا عمران خان کا لانگ مارچ ، دونوں درمیانے طبقے کی امنگوں کے نمائندہ ہیں۔ اس طرح کی تحریکیں تب تک اٹھتی رہیں گی جب تک درمیانے طبقے کو ریاستی امور میں وہ حصہ نہیں ملتا جس کا وہ اپنے آپ کو حق دار سمجھتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بنیادی تبدیلی کے خواہاں دونوں متذکرہ رہنما بھی صاحب اختیار طبقات میں سے ہیں ۔ اسی لئے ان کی حکمت عملی ایسی ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر سے ڈکٹیٹر شپ قائم ہو سکتی ہے جو بنیادی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ دونوں رہنما سیاسی روگ کی علامتیں ہیں ان کا حل نہیں ہیں۔
تازہ ترین