آجکل مشرف، عمران اور قادری نامی بھوت حکومت کے سر پر سوار ہیں جبکہ شمال میں افواجِ پاکستان اور جنوب میں رینجرزِ پاکستان، دہشتگردی کے بھوتوں کا صفایا کرنے میںمصروف ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کو آخر بھوت بنگلہ بنایا کس نے؟ جس طرح آرٹیکل چھ کا اِطلاق ایک فرد پر نہیںہوتا اِسی طرح اِس تباہ حالی کا ذمہ دار بھی کوئی ایک فرد نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے اقبال کہتے ہیں۔
؎ فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میںاور بیرون دریا کچھ نہیں
قارئین کرام! اقبال کے اس شعر کا اگر امتحانی جائزہ لیا جائے تو اس فرد کا قائدِ ملت اور مادرِ ملت کے ساتھ جو ’’ربط‘‘ رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ایک کو مروا دیا اور دوسرے کو ہروا دیا۔جہاں تک موج کا تعلق ہے تو اُسے ’’دریا میں‘‘مچھلیوںاور مچھیروںنے تو ضرور دیکھا ہو گا مگر غریب عوام نے ہر سال’’بیرونِ دریا‘‘ موج کو سیلاب کی صورت میں اپنی تباہی کا ہی سبب بنتے دیکھا! موج ، بلکہ موج ہی موج اگر کسی کی رہی تو وہ فقط ہمارے قائدین کی تھی۔ حقیقت پوچھیے تو اس خستہ اور زبوں حالی کے صندوق میں ہم سب نے حسب توفیق دل کھول کرچندا ڈالا البتہ ہمارے قائدین اس ثوابی عمل میں سب سے زیادہ مخیّر نکلے جنھوںنے وطن پرستی سے زیادہ خود پرستی کو چار چاند لگائے اور یہ بے لوث قوم ان کی اس فراخ دلیِ سے متاثر ہو کرسی این جی (CNG) کی لائن بنا کر انہی کا اُلو سیدھا کرتی رہی۔ ہم قومی یکجہتی کی نفی کرتے کرتے گروہی اور لسانی سیاست کی دلدل میں پھنستے رہے اور رہی سہی کسر فرقہ پرستی نے پوری کردی۔آج سے ایک ماہ بعد ہم اپنے ملک کی 67ویں سالگرہ میں قومی یکجہتی کا ایسا مظاہرہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں جس کی تقلید ہمارے سوا اور کوئی نہ کر سکے۔ اسی روز ’’انقلابی جوڑ‘‘ سونامی مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا دے کر قوم کو حکمرانوں سے آزادی دلائیگا۔ جس کے’’ توڑ‘‘ میںحکومت آٹھ سال سے بند کمرے میں منائی جانے والی جشن آزادی کی تقریب کو اسلام آبادکی میٹرو زدہ سڑکوں پر لے آئیگی تاکہ دھرنا دھرے کا دھرا رہ جائے اور جشن آزادی کی لاج بھی رہ جائے۔ یہ ہے ہماری جوڑ توڑ کی سیاست اور سیاستدانوں کی بصیرت! یاد رہے کہ یہ سب عین اس وقت ہو رہا ہے جب ہماری افواج حکمرانوں کے بیانات کے مطابق قوم کی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ کیا قوموں کی بقاء کی جنگ اس طرح لڑی جاتی ہے ؟قارئین کرام! میں کئی بار لکھ چکا ہوں اور ’’جوُں‘‘ رینگنے تک لکھتا رہوں گا کہ ہمیں انقلاب سے زیادہ اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ جمہوریت کی روح کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے ہماری سیاسی قوتیں مزاحمتی سیاست پر اس لئے اتر آتی ہیں کیونکہ الیکشن جیتنے کے بعدحکمرانوں کا انداز اس طرح کا ہوتا ہے جیسے انہوں نے ملک کو پانچ سال کے لئے پٹّے (Lease) پر لے لیا ہو اور اس میں بسنے والے ان کے ہاری ہوں۔ آجکل کے سیاسی بیانات میں دو اصلاحات کا خاصا چرچا ہے جس پر میں لکھنا چاہتا ہوں۔ ایک حکومت کی میعاد پانچ سال کی بجائے چار سال ہونی چاہیے، دوسرے چیف الیکشن کمشنر ضروری نہیں کہ عدلیہ سے ہو۔ میں ذاتی طور پر دونوں سفارشات کے حق میں ہوں۔ مدتِ حکومت میں ایک سال کم کرنے سے عوام کی مدتِ مشقّت میں خاطر خواہ کمی ہوگی اور پانچ کی بجائے چار سال بعد امید کی کرن نظر آئے گی۔ ویسے بھی یہ قوم نفسیاتی طور پر حکومت کا بوجھ بڑی مشکل سے دو یا تین سال سے زیادہ نہیں اٹھا سکتی۔ ہماری سیاسی تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو آپ کو علم ہوگا کہ ہمارے 67سالوں میں سے 36 سال فوجی حکومت رہی جو تقریباً دس دس سال کے تین دورانیوں پر محیط ہے۔ اس کے بر عکس 34 سال وقفوں وقفوں سے بوندا باندی کی صورت میں سیاسی حکومتیں بر سر اقتدار رہیں۔ آج تک اکیس وزرائِ اعظم اور چار نگراں وزرائِ اعظم آئے جس میں سے چاریعنی جونیجو، جمالی، چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز فوجی صدورکے زیر سایہ رہے۔ گو فوجی حکومتوں کے دور میں یوں تو سیاسی استحکام نظر آیا مگران کے لگائے ہوئے وزرائِ اعظم بھی زیادہ عرصہ اپنے عہدوں پر نہ رہ سکے جس میں جونیجو اور شوکت عزیز تین سال، جمالی ڈیڑھ سال اور چوہدری شجاعت فقط دو ماہ وزیراعظم رہے۔ نوازشریف کے تینوں ادوار اور بی بی کی دو باریوں کو اگر جمع کیا جائے تو نواز شریف کے پانچ سال اور بی بی کے ساڑھے تین سال بنتے ہیں۔ مزے کی بات کہ ان تمام وزرائے اعظم میں سے فقط تین ہی چارسال وزیر اعظم رہے اور ان کا حال کچھ یوں ہوا پہلے لیاقت علی خاں جنہیں قتل کر دیا گیا، دوسرے بھٹو جو پھانسی چڑھے اور تیسرے یوسف رضا گیلانی جو اللہ کے فضل سے زندہ تو ہیں مگر عدالت سے نااہل قرار دیے گئے اور آجکل نیب کے زیر عتاب ہیں۔ مجھے کوئی ایسی سیاسی حکومت یاد نہیں پڑتی جس کے کھڑے ہونے کے ساتھ ہی اس کے گرنے کی سرگوشیاں نہ شروع ہوئی ہوں۔ اس کے بعد جوڑ توڑ شروع ہو جاتا ہے۔ حکومت کی مدت میں کمی یقینا فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے مگر اسے کرے کون ؟ اسی لیے تو یہ سفارش ہمیشہ حزب اختلاف سے ہی آتی ہے اورحکمرانوں کے دوسرے کان سے نکل جاتی ہے۔ جہاں تک چیف الیکشن کمشنر کا تعلق ہے تو میں اس سلسلے میں اپنے ایک کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ چیف الیکشن کمشنر کا عدلیہ سے ہونا قطعاً ضروری نہیں کیونکہ کام کی نوعیت قانونی ہونے سے کہیں زیادہ انتظامی ہے۔ میری رائے میں فقط چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے کوئی معنی خیز تبدیلی نہ آسکے گی جب تک اس ادارے کو مکمل طور پر آزاد اور فعال نہ بنایا جائے۔ ہندوستان میں آئینی طور پر چیف الیکشن کمشنرصرف انتظامی محکموں سے ہی ہو سکتا ہے جس کو وزیراعظم کی سفارش پر لگانا توصدر کو ہوتاہے مگر اس کوہٹانے کے لئے دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ ان کی مدت ملازمت چھ سال یاپینسٹھ سال کی عمر جو بھی پہلے آئے سے مشروط ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے ضعیف اور قابل احترام بزرگ اس زحمت سے بچ سکتے ہیںمگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں کوئی ایسااللہ کا بندہ ملتا ہی نہیں جس پر کسی نہ کسی طرح انگلیاں نہ اٹھتی ہوں۔قارئین کرام! ان دونوں سفارشات پر حکومت کو عمل کرنا چاہیے مگر صرف یہ کردینا مسئلے کا حل نہیں ہوگا جب تک کہ ہم جامع اور دوررس انتخابی اصلاحات کو متعارف نہ کرائیں ورنہ معاف کیجیے باوجود بلندوبالا دعووں کے یہ جمہوریت صرف ’’منہ بولی جمہوریت ہی رہے گی‘‘۔