• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر سال 11؍اگست کے آتے ہی دھیان غوث بخش بزنجو کی طرف جاتا ہے۔
میر غوث بخش بزنجو۔ اس نام کے ساتھ ہی ذہن میں ایک طویل جدوجہد ابھرتی ہے۔ پہاڑوں، ساحلی چٹانوں اور سبززاروں کی سیاست کے رزمیہ نغموں کا سلسلہ بھی در آتا ہے۔ 11؍اگست 1989ء کو جب مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو میرے ذہن میں دھماکہ نہیں ہوا بلکہ دھماکے کے بعد جو سناٹا سا پیدا ہوجاتا ہے اس نے میری سوچ کو گھیر لیا، کتنا کرب تھا اس سناٹے میں، جس نے ہر آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا، ہر سسکی اپنا مفہوم کھو چکی تھی اور ہر چیخ غیرضروری ہوگئی تھی۔ بزنجو صاحب کو کیا معلوم کہ اب وہ ہم میں نہیں ہیں ان کے لئے تو دکھ یا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ مگر ہمارے لئے۔
میکسم گورکی نے لینن کے متعلق لکھا تھا ’’وہ سادہ مزاج ہے، سچ کی طرح سادہ‘‘ گورکی نے یہ بات اس طرح کہی تھی جیسے اس نے کافی عرصہ غور کیا ہو اور یہ رائے قائم کی ہو۔ غوث بخش بزنجو کے لئے بھی یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ یہ ان میں سب سے نمایاں وصف تھا۔
میر صاحب کی زندگی کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ عظیم انسان اور بااصول سیاست دان عہد حاضر کے نوادرات میں سے ہے وہ ہمیشہ اپنے اردگرد کی زندگی سے قریبی تعلق رکھتے تھے ان میں توجہ مرکوز کرنے کی بے پناہ صلاحیت پائی جاتی تھی۔ وہ انتہائی خوش مزاج اور مستقل مزاج آدمی تھے جنہیں اپنے اوپر بے حد قابو تھا یہی وجہ ہے کہ وہ بہت بڑے رجائیت پسند تھے۔
میر غوث بخش بزنجو سے میری واقفیت کا آغاز نیشنل عوامی پارٹی سے ہوا، یہ واقفیت ذاتی نہ تھی بلکہ پارٹی کے حوالے سے تھی انہی دنوں وہ لاہور آئے تو پروفیسر امین مغل اور ملک شمیم اشرف نے ان سے میرا تعارف کرایا۔ اس شناسائی نے مجھ پر ایک ایسا انمٹ نقش چھوڑا جو پارٹی میں میرے تمام تر کام کے دوران محو نہ ہوسکا۔ ولی خان، عطاء اللہ مینگل، خیر بخش، اجمل خٹک… لیکن جب میں میر غوث بخش بزنجو کی سادگی، عوام دوستی، جمہوریت پسندی اور انقلابی خیالات اور سرگرمیوں سے واقف ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ بزنجو ایک غیرمعمولی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ میری نگاہ میں وہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے محض رہنما ہی نہ تھے بلکہ اس کے حقیقی بانی بھی تھے اس لئے کہ وہی ہماری پارٹی کے عوامی نظریات، پارٹی کی عوامی ماہیت اور اس کے فوری تقاضوں سے واقف تھے، جب کبھی میں نے ان کا موازنہ اپنی پارٹی کے دوسرے رہنمائوں سے کیا تو ہر بار دوسروں کے مقابلے میں بزنجو صاحب نے نہ صرف ایک رہنما بلکہ ایک اعلٰی درجہ کے رہنما گویا ایک شاہین تھے جنہیں پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنے میں کوئی خوف محسوس نہ ہوتا ہو، جو پاکستان میں انقلاب کے ان دیکھے راستے پر پارٹی کی جرأت مندانہ انداز میں رہنمائی کیا کرتے تھے۔ بزنجو صاحب سے میری پہلی ملاقات لاہور میں پارٹی کے دفتر میں ہوئی تھی میں اپنی پارٹی کے اس رہنما سے ملنے کا مشتاق تھا اس عظیم انسان سے جو نہ صرف سیاسی اعتبار سے عظیم تھا بلکہ خود کو ذہنی طور پر بھی ان کے بہت قریب پاتا تھا۔
ان دنوں بھی بعض رجعت پسند یا دائیں بازو یا کچھ بھی کہہ لیجئے صحافی، نیشنل عوامی پارٹی کی تمام تر لیڈر شپ زیادہ تر بزنجو صاحب کی انقلابی سوچ کے خلاف زہر اگلتے تھے، جن میں بعض اخباراور ایک ڈائجسٹ وغیرہ پیش پیش تھے۔انہوںنے حکومت وقت سے مل کر بزنجو اور اس کی عوامی سیاست کے ساتھ وہ سلوک کیا جیسا کہ روایتی طور پر ایک جن نے اپنے مہمانوں کے ساتھ روا رکھا تھا، وہ بظاہر بڑے خلوص و احترام سے اجنبی مسافروں کو اپنے ہاں قیام کرنے کی دعوت دیتا پھر جو اس کی چارپائی سے چھوٹا ہوتا وہ بھی اس کے پیٹ کا ایندھن بن جاتا اور جس کا قد چارپائی سے بڑا ہوتا وہ بھی اس پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا یوں ہر کسی کو کھا جانا اس جن کی فطرت بن گئی تھی اور بہانہ یہ بنا رکھا تھا کہ آدمی یا تو چارپائی سے بڑا نکلا یا چھوٹا۔ یعنی چارپائی کو پیمانے کی حیثیت دے دی گئی تھی اور بدقسمتی سے نیشنل عوامی پارٹی اس چارپائی پر فٹ نہ بیٹھتی تھی۔
نیشنل عوامی پارٹی میں، باچا خان، میاں افتخار الدین، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی، خان عبدالصمد خان اچکزئی، غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، عطاء اللہ مینگل، ولی خان، خیر بخش مری اور دوسرے بہت سے ترقی پسند اور انگریز (کالے اور سفید) استعمار کے خلاف سینہ سپر ہونے والے سیاستدان شامل تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی سے قبل باچا خان کی خدائی خدمتگار، جی ایم سید کا سندھی محاذ، میاں افتخار الدین کی آواز پاکستان پارٹی، حیدر بخش جتوئی کی ہاری کمیٹی، عبدالصمد اچکزئی کی اورغوث بخش بزنجو کی گل، الگ الگ جماعتیں تھیں پھر سب لوگوں نے مل کر ایک پارٹی تشکیل دی جس کا نام پاکستان نیشنل پارٹی رکھا گیا، بعد میں مولانا بھاشانی کی شمولیت پر یہی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کہلائی، جس کا منشور غوث بخش بزنجو کی ذہنی عرق ریزی کا نتیجہ تھا کہ انہیں یقین کامل تھا کہ مصائب و آلام، دکھ درد و غم انسانی زندگی کے لئے ناگزیر نہیں ہے بلکہ ایسی مکروہ چیزیں ہیں جن سے انسان کو قطعاً چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔ بزنجو صاحب کے ساتھ کسی بھی مسئلہ پر متنازع بحث کی جاسکتی تھی اور ایسی بحثیں اکثر ہوتی تھیں نہ صرف پاکستان بلکہ لندن اور میرے گھر ایمسٹرڈیم میں بھی، وہ یہ کبھی نہیں سوچتے تھے کہ ان کے خیالات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا اور بڑی توجہ سے دوسروں کے خیالات سنتے تھے لیکن وہ ایسی کسی چیز کو، کسی بات کو کبھی نظرانداز نہیں کرتے تھے جو بنیادی اور منطقی طورپر غلط ہو۔ اصول کے معاملے میں وہ کوئی رعایت نہ برتتے تھے۔ مجھے کل کی طرح آج بھی یاد ہے کہ ایمسٹرڈیم میں میرے گھر پر ایک بار فیض احمد فیض کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’اگر فیض جیسا شخص پیدا نہ ہوتا تو ہم انقلاب کے لئے اسے پیدا کرتے‘‘۔
بزنجو صاحب اپنے بیٹے بزن بزنجو کے ساتھ میرے گھر آئے ہوئے تھے ہم چند دوست رات گئے تک ان کی دلچسپ باتیں اور سیاسی تبصرے سنتے رہے۔ سفر کی وجہ سے وہ کافی تھکے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، ’’مفتی! مجھے میرا کمرہ دکھائو… نیند آرہی ہے‘‘… میں انہیں ان کے کمرے میں لے گیا، ضرورت کی تمام چیزیں پہلے ہی سے کمرے میں رکھ دی گئی تھیں۔ پھر بھی احتیاطاً میں نے کہا ’’اب آپ آرام کیجئے۔ رات کے کسی حصے میں بھی کسی چیز کی ضرورت پیش آئے تو بلاتکلف مجھے آواز دے دیجئے گا‘‘۔ کہنے لگے ’’نہیں! اب میں سوئوں گا اور صبح تک سوتا رہوں گا۔ بس تم یہ کرنا کہ سویرا ہوتو مجھے جگا دینا‘‘۔ میں ہولے سے قدم لیتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔
’’بزنجو صاحب! ابھی آپ آرام سے سوئیے جب سویرا ہوگا تو میں یا میرے بچے ضرور آپ کو جگا دیں گے‘‘…
تازہ ترین