• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاں میں ہو غم و شادی بہم، ہمیں کیا کام
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کے شاد نہیں
تم ان کے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کرو غالب!
وہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ ’’یاد نہیں‘‘
ملک میں 14 ؍اگست کی آمد سے پہلے سیاسی ماحول گرم سے گرم تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عمران خان کے مطالبات اور مارچ کے بارے میں ثابت قدمی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور نئے نئے منصوبے مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے زیر غور آرہے ہیں۔ کہیں ایک لاکھ موٹر سائیکلوں کا قافلہ ہے اور کہیں دھرنے کی باتیں۔ دوسری طرف وزیراعظم نے بھی سیاسی ملاقاتیں اپنوں اور غیروں سے شروع کر دی ہیں۔ بھلا ہو عمران خان اور طاہر القادری کا جنہوں نے انہیں متحرک کردیا اور اس بہانے انہوں نے کچھ کیبنٹ ممبرز اور کچھ پارٹی ارکان کو شرف ملاقات بخش دیا اور شاید مشاورت میں بھی شامل کرلیا ہو جب کہ اس کا امکان بہت کم ہے۔ ان کے مخالف کہتے ہیں کہ وزیراعظم مشاورت کے قائل نہیں۔ بہرحال انہوں نے اپنوں اور غیروں سے ملاقاتوں اور مشاورت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جو خوش آئند بات ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے مشورہ ضرور کر لیں اور کوئی نہ ملے تو دیوار ہی سے مشورہ کر لیں۔ میرے خیال میں دیوار سے مراد کسی خالی الذہن شخص سے ہوگی۔ بہرحال یہ کہاوت ہے جو کہ اکثر استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف طاہر القادری صاحب کی روزمرہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس یا پریس بریفنگ کا سلسلہ جاری ہے۔وہی دھمکی آمیز لہجہ، وہی اعتماد ،وہی سلسلہ تقریر اور انداز بیان جو سردیوں کے موسم میں جناب آصف زرداری کی حکومت کو گرانے کا تھا۔ سب کچھ وہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نتیجہ بھی وہی ہوگا یا اس دفعہ مختلف ہوگا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت موسم سردیوں کا تھا اور بارش بھی شروع ہوگئی تھی۔ اس دفعہ موسم گرمیوں کا ہے اور لوڈشیڈنگ کے امکانات بھی کافی ہیں۔ اب مولانا کی ثابت قدمی کا امتحان ہے۔ انقلاب کی تاریخ کا اعلان تو نہیں آیا صرف یوم شہداء 10؍اگست کو منایا جائے گا۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ اس روز شہیدوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو۔ اس دفعہ 10؍ اگست کو گلوبٹ جیل میں ہوگا۔ بہرحال آج کے اخبار میں خبر شائع ہوئی ہے کہ جناب شہباز شریف نے یوم شہدا پر احتجاج کی نگرانی خود سنبھال لی۔ میاں شہباز شریف ذمہ دار آدمی ہیں اور مجھے امید ہے کہ حالات کو بہتری کی طرف لے جائیں گے۔ مگر یہ کنٹینر رکھ کر راستے بند کرنے کا مشورہ کس نے دیا ہے ۔ کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے ڈاکٹر طاہر القادری کی شہرت اور اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے اور حکومت کی کمزوری اور خوف زدگی کا اشارہ ملتا ہے۔ میرا خیال ہے جس کسی نے بھی یہ مشورہ چیف منسٹر کو دیا ہے غلط دیا ہے۔ اس پر نظر ثانی کرنی چاہئے کیونکہ اس طرح کے اقدامات پریس کوریج کا باعث بنتے ہیں اور لوگوں میں خواہ مخواہ اشتعال پیدا کرتے ہیں اور واقعہ کو غیر ضروری طور پر سرکاری سطح پر اہمیت دینے کا باعث بنتے ہیں۔ بہرحال میاں شہباز شریف حکومت چلا رہے ہیں۔ بہتر جانتے ہیں مگر میرا مشورہ ہے کہ یہ غیرضروری قدم تھا جو بہرحال اٹھا لیا گیا۔ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ اگرچہ عام کارکن کو خوفزدہ کر دیتا ہے۔ اور تماشائی قسم کے شرکا کو روکنے کا باعث بنتا ہے مگر دوسری طرف پریس کوریج اور شہرت کا باعث بھی ہوتا ہے اور احتجاج کی ناکامی کی صورت میں احتجاجی پارٹی کو ایک بہانہ مل جاتا ہے کہ ہمارے ایک لاکھ کارکن گرفتار کر لئے گئے تھے۔ حالانکہ ایک لاکھ آدمیوں کو رکھنے کے لئے جیلوں میں گنجائش بھی نہیں ہوتی۔ اس وقت میڈیا کے ذریعے اعصاب کی جنگ ہو رہی ہے اور دونوں طرف سے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ جناب آصف زرداری صاحب لندن کے خوشگوار موسم میں بیٹھ کر ان تمام چیزوں کا نظارہ دور ہی دور سے کر رہے ہیں اور گاہے بگاہے ٹیلی فون پر پارٹی سربراہوں سے گفتگو کر کے حالات کی چاشنی کا مزہ لیتے رہتے ہیں۔ کبھی نواز شریف کو فون اور کبھی عمران خان کو ۔ ان کا ایک ہی مؤقف ہے کہ جمہوری حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرے۔ پیپلز پارٹی کو اصل خطرہ مارشل لا سے ہے۔ کیونکہ اگر مارشل لا لگ گیا تو پیپلز پارٹی کی سندھ ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ اور مارشل لا کے تحت احتساب کا عمل بہت سخت ہوتا ہے۔ بہرحال یہ ایک سوچ ہے اور بہت سے جمہوریت پسند اور ترقی پسند لوگ اس سوچ اور نظریئے سے اختلاف رکھتے ہیں اور اسے انصاف کے اصولوں سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اور اہم موضوع ہے۔ اس پرحکومتی اور این جی اوز کی سطح پر سیمینار ہونے چاہیں اور اینکر حضرات ٹاک شوز میں اس موضوع پر بحث کروا کر لوگوں کے خیالات حاصل کریں۔ اس وقت جمہوریت کی ناکامی کے اثرات نمایاں ہیں۔ بہرحال میری دعا ہے کہ جو بھی ہو پاکستان کے غریب عوام کے اور اس پاک وطن کے حق میں ہو۔ رشوت، اقربا پروری اور غربت کاخاتمہ ہو۔ اسی دعا کے ساتھ آخر میں حبیب جالب کے اشعار قارئین کی نذرکرتا ہوں ۔
اس قدر بے رخی سے بات نہ کر
دیکھ تو ہم کہاں سے آئے ہیں
ہم سے پوچھو چمن پہ کیا گزری
ہم گزر کر خزاں سے آئے ہیں
تازہ ترین