اسرائیلی افواج کی طرف سے غزہ میں فلسطینی بچوں کی بے رحمانہ نسل کشی جاری ہے۔ دوسری طرف امتِ مرحوم میں عوامی سطح پرروایتی احتجاجی مظاہروں اور حکومتی سطح پر محض اسرائیلی بہیمانہ کاروائیوں کی مذمت کے ذریعے فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیا جارہا ہے۔ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہُو نے 7اگست2014ء کو بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈکراس کے ذمہ دار پیٹرماررPeter Maurer کیساتھ بات کرتے ہو ئے ماضی کی طرح الزام لگایا کہ فلسطین کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک حماس سویلین کو ہلاک کرکے انھی کے پیچھے چھپنے کے دوہرے جنگی جرم کا ارتکاب کررہی ہے۔ نیتن یاہو کے بقول حماس کے جنگجو اسپتالوں کے نیچے مہلک ہتھیار و گولہ بارودچھپاتے ہیں ، مسجدوں میں چھپتے ہیں، اپنے فوجی ہیڈکوارٹر اسکولوں کے نزدیک قائم کرتے ہیں اور یوں غزہ کے باسیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ادھر ہولوکاسٹ میں بچ رہنے والے رومانوی نژاد امریکی یہودی پروفیسر اور1986ء کے نوبل انعام یافتہ Elie Wieselنے اسرائیلی افواج کی بہیمانہ کاروائیوں کے دفاع میں اگست2014ء سے ایک نئی اشتہاری مہم کا آغاز کر رکھا ہے ۔موصوف کی اشتہاری مہم کا عنوان ہے: ’’یہودیوں نے 3500سال قبل بچوں کی قربانی کو رد کیا اورانکار کیا۔اب حماس کی باری ہے کہ وہ بچوں کو انسانی ڈھال کے طورپراستعمال سے روکے۔‘‘ اشتہار جو شکاگو،لاس اینجلس،میامی ، نیویارک ، واشنگٹن اور دیگر امریکی شہروں کے بڑے بڑے اخبارات میںچھپا ، میں یہودی مصنف نے لکھا کہ : ’’غزہ اوراسرائیل میںبحران اُس جنگ کی وجہ سے ہے جو زندگی کالطف اٹھانے والوں اورموت کی ترغیب دینے والوں کے درمیان ہے۔‘‘ موصوف نے پیغمبرخدا ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خدا نے انھیں اپنے بیٹے کی قربانی دینے سے روک دیا۔ Wieselحماس کوDeath Cultقراردیتا ہے ۔ اور مزید لکھتا ہے: "کیا دائود علیہ السلام کے حمدیہ کلام اور خلافت عثمانیہ کی قیمتی لائبریریوں کی دونوں ثقافتوں میں زندگی کی محبت کاکوئی اشتراک موجودنہیں تاکہ ہم اپنے بچوں کو دانش اورمواقع منتقل کرسکیں؟ اورکیاحماس عرب بچوں کوخودکش بمباراورراکٹوں کے سامنے انسانی ڈھال بناکراُن کا مستقبل تاریک بناناچاہتی ہے؟اسرائیلی والدین کی طرح، فلسطینی والدین بھی اپنے بچوں کے لئے امیدافزا مستقبل کے خواہشمندہیںچنانچہ دونوں کو امن کے لئے اکٹھا ہو ناہوگا۔ " Weiselنے اشتہارمیں امریکی صدر وباما اور دیگر عالمی رہنمائوں پر زوردیاکہ وہ بچوں کوانسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے پر حماس کی مذمت کریں۔ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے بھی حماس کے خلاف ایسے ہی الزامات لگاکر اسرائیلی کاروائی کادفاع کرنے کی کوشش کی ۔ یورپی یونین نے حماس کی عام شہریوں کو اپنے رہائشی علاقے خالی نہ کرنے کی حالیہ ہدایات کو انھیں انسانی ڈھال کے طور پراستعمال کرنے کے مترادف قرار دیا۔ اس سے قبل اسرائیلی میڈیا ایکسپرٹ ایمس ہیرل نے مختلف تصویروں کی بنیاد پراسرائیل کے قدیمی روزنامے HAARETZمیں 3اگست 2004ء کو فلسطینی مجاہدین کیخلاف اسی طرح کے الزامات لگائے جب کہ 2008-2009 میں اسرائیلی ’’انٹیلی جنس ودہشت گردی انفارمیشن سنٹر‘‘ نے انسانی ڈھال کے استعمال کو حماس کی جنگی حکمتِ عملی کا ایک اہم جزو قراردیا تھا ۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہواور یہودی مصنف Elie Weisel سمیت یہودی لابی کے الزامات کا حقائق کے آئینے میں جائزہ لیا جائے تو یہ بے بنیاد اور نہتّے فلسطینیوں پر اسرائیلی بربریت کا جواز تراشنے کی بھونڈی کوشش دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف جہاں حماس کے قائد خالد میشال نے سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان الزامات کی سختی سے تردید کی وہیں اقوامِ متحدہ ،ایمنسٹی انٹرنیشنل اورخوداسرائیل کی معروف ایمرجنسی اوربلڈ بینک سروس میگن ڈیوڈایڈم (MDA) نے اسرائیلی افواج کے حماس کے خلاف الزامات کوناقابلِ تصدیق ہونے کی بنیادپرردکیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اوراقوام متحدہ کے Fact Finding Mission on the Gaza Conflictنے2008-2009میں فلسطینی جنگجوئوں کی طرف سے ماضی میں بھی انسانی ڈھال کے استعمال کے امکان کو غلط قراردیا۔ فلسطینی آبادکاروںنے مشن کو دیئے گئے بیانات میں کہا کہ وہ اسرائیلی افواج کی کاروائیوں سے محفوظ رہنے کیلئے اپنے گھروں میںموجود رہے کیونکہ اُن کے پاس کوئی دوسری جائے پناہ میسرہی نہیں تھی۔
سال2009ء کی رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی تصدیق کی کہ فلسطینی جنگجوئوں نے سویلین آبادی کو فوجی مقاصد کے لئے بطور ڈھال استعمال کیا نہ ہی عام شہریوں کواِ س مقصدکے لئے ایسی عمارتوں میں قیام پذیر رہنے پر مجبورکیاجو اسرائیلی حملے کی زد میں تھیں۔ صیہونی افواج اور حماس میں جاری 2014ء کی حالیہ خونی کشمکش کے دوران 'دی انڈیپنڈنٹ' اور ’دی گارڈین‘ کے صحافیوں اور بی۔بی۔ سی کے مشرق وسطیٰ کے ایڈیٹر جرمی بوون کے مشاہدات کے مطابق انھیں حماس کی طرف سے فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طورپراستعمال کرنے کی کوئی شہادت دستیاب ہوئی نہ ہی انھوں نے کوئی ایسی چیز دیکھی۔ غزہ کے باسیوں کی طرف سے اسرائیلی وارننگ کو نظراندازکرنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ اسرائیل نے اِن علاقوں کو پناہ گزینوں کے لئے محفوظ قرار دیا ہوا تھا۔ اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق25جولائی2014ء تک حماس یا دیگر مسلح مزاحمت کاروں کی طرف سے فلسطینیوںکو مخصوص فوجی علاقوں میں اسرائیلی فوج کے حملوں کے خلاف جان بوجھ کر انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوئی شہادت نہیں ملی۔ چھ سال قبل اسرائیلی افواج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے 2008سے پہلے 1200سے زیادہ دفعہ فلسطینیوں کی سویلین آبادی کو انسانی ڈھال کے طورپراستعمال کیاجس پر اسرائیلی ہائی کورٹ آف جسٹس نے پابندی لگائی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اورہیومن رائٹس واچ نے اپریل 2002کی جینن کی لڑائی میں صیہونی افواج کے فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پراستعمال کرنے کی رپورٹیں قابلِ تصدیق ثبوتوں کے ہمراہ مرتب کیں۔ 2005میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے اسرائیلی فوجیوں کے اس وحشیانہ طرزِ عمل پر پابندی لگائی۔ تاہم انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے مطابق سپریم کورٹ کی طرف سے لگائی گئی اِس پابندی کے باوجود اسرائیلی افواج نے 2006میں بیت حانون کی لڑائی میں فلسطینی شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ فروری 2007میںایسوسی ایٹڈ پریس ٹیلی ویژن نیوزکی طرف سے جاری کردہ ایک وڈیومیں دکھایا گیا کہ کس طرح مغربی کنارے کی سویلین آبادی کو اسرائیلی فوج کے ایک گروپ نے انسانی ڈھال کے طورپر استعمال کیا۔ اپریل 2007میں خوداسرائیلی فوج نے اپنے ایک یونٹ کمانڈرکومعطل کیا جو فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے ایک حملے میں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہاتھا۔مغربی کنارے کی ایک گیارہ سالہ فلسطینی لڑکی نے اسرائیل کی انسانی حقوق سے متعلقہ معروف این۔جی۔او B'Tselemکو بتایا کہ کس طرح اسرائیلی سپاہیوں نے اُسے انسانی ڈھال کے طورپراستعمال کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2008-2009میں اسرائیلی افواج نے آپریشن کاسٹ لینڈ کے دوران نہتے فلسطینیوں کو بچوں سمیت مجبورکیاکہ وہ مسلح فوجیوں کے آ گے آ گے چلیں ، عمارتوں کی تلاشی لینے کے لئے سب سے پہلے داخل ہو ںاورمشکوک اشیاء اوردھماکہ خیز مواد کو چیک کر یں۔ اسرائیلیوں نے بعض فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروںکے ایک کمرے میں رہائش پر مجبور کر کے باقی کمروں کو فوجی مقاصد اور ماہرنشانہ بازوں کی مورچہ بندی کے لئے استعمال کرکے ضعیفوں اوربچوں کو انتہائی خطرات میں ڈالا۔اسی لڑائی کے دوران انگریزی اخباردی گارڈین نے عام شہریوں کے بیانات اور تین ویڈیوز کی بنیاد پراسرائیلی افواج کی طرف سے گھروں کی تلاشی لینے اور حماس کے جنگجوئوں کی فائرنگ کے سامنے کم سِن فلسطینی بچوں کو بطور ڈھال استعمال کرنے کے الزامات کو تصدیق کے بعد درست قرار دیا۔اکتوبر 2010ء میں اسرائیلی افواج نے اقوامِ متحدہ کے توجہ دلانے پر گیواتی بریگیڈ کے دو سٹاف سرجنٹس کے خلاف کاروائی کی جنہوں نے 9سالہ فلسطینی بچے کو کچھ ایسے بیگ کھولنے پرمجبورکیاتھاجن میںدھماکہ خیز مواد ہوسکتاتھا۔ بچے کی ماں نے الزام لگایاکہ فوجی اہلکاروںکو دی گئی معمولی انتظامی سزا ایسی بہیمانہ کاروائی کیلئے دوسرے فوجیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف تھی۔ہیومن رائٹس واچ کے مشرقِ وسطٰی کے ڈائریکٹرنے فوجی اہلکاروں کو دی گئی معمولی سزا کو محض کلائی پر ہلکے تھپڑ جیسی اور انتہائی کم قرار دیا۔ اقوام ِمتحدہ کو دستیاب شہادتوں کے مطابق 2010ء اور2013ء کے آغاز میں بھی اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی بچوں کو انسانی ڈھال یا جاسوس کے طورپراستعمال کیامگر کِسی فوجی اہلکارکوکوئی سزانہ دی گئی۔
اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی مندرجہ بالارپورٹس کی روشنی میں یہودی لابی کے فلسطینی مجاہدین کے خلاف لگائے الزامات واضح طور پر غلط ثابت ہوتے ہیںاور اِس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ مذکورہ لابی نے فلسطینی حریت پسند گروہوں پر غلط الزامات لگا کر اسرائیلی کاروائیوں کاجواز گھڑنے کی کوشش کی۔ ایسے میں نوبل انعام یافتہ یہودی مصنف Elie Weisel کی مذموم اشتہاری مہم خود نوبل انعام عطا کرنے والے ادارے کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ جنگوں میں نہتّے شہریوں کی ہلاکت پر انسانی حقوق کی تنظیمیں ، شاعر اور لکھاری، جارح افواج کے خلاف ہمیشہ سے احتجاج کرتے آئے ہیں۔ تاہم معصوم فلسطینی بچّوں، عورتوںاور ضعیفوںکو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والی صیہونی افواج کے خلاف کون اورکب آواز اٹھائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیل کی قومی سلامتی کے نام پر صیہونی ریاست کے عالمی سرپرستوں کو غزہ میں اسرائیلی قربان گاہ پر اور کتنے فلسطینی بچوں کی قربانی درکار ہے؟