’’جب لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تو عقل و خرد پر مبنی تجزئیے پس پشت چلے جاتے ہیں، ہنگاموں اور بپھرے ہوئے جذبوں کے سیلاب میں معقولیت سب سے پہلا شکار ہوتی ہے‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے لانگ مارچ،مطالبات اور طرز عمل کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے مگر چار روز سے حکمران، سیاستدان، دانشور اور تجزیہ کاروں کا انداز فکر کیا ہے؟ اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہئے۔
یہ دعویٰ اور خواہش اپنی جگہ کہ فلاں، فلاں اتنا بڑا ہجوم اسلام آباد میں لا بٹھائے تو کیا ہو؟ مگر سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد کی دو شاہراہوں پر علامہ اور کپتان کے پرجوش، پرعزم ا ور ثابت قدم کارکنوں کا قبضہ ہے۔ دونوں لیڈر دس لاکھ افراد اکٹھے نہ کرسکے مگر ان کی موجودہ جمع پونجی بھی مایوسی، اضطراب اور جذبات کی رو میں بہہ کر ریڈ زون کا ’’تقدس‘‘ پامال کرنے اور موجودہ سیاسی بندوبست کا تیا پانچہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ماڈل ٹائون جیسا کوئی انسانی المیہ رونماہوا تو مداخلت سے ہر قیمت پر گریز کی علمبردار قوتوں کو اپنا فرض ادا کرنے پڑیگا جس کا احساس سراج الحق، خورشید شاہ اور الطاف حسین کو تو شاید ہے مگر جن کا سب کچھ دائو پر لگا ہے انہیں نہیں یا کم ہے ورنہ چار روز سے بے نیازی دیکھنے کو نہ ملتی۔
عمران خان کی طرف سے سول نافرمانی کا اعلان میری ناقص رائے میں نہ کوئی غیر سنجیدہ حرکت ہے نہ دھرنے سے جان چھڑانے اور چھوٹی موٹی رعایت لے کر پسپا ہونے کی باعزت تدبیر۔ یہ کور کمیٹی میں طویل بحث مباحثے کا نتیجہ اور موجودہ سیاسی نظام سے چمٹے رہنے کے خواہش مند اپنے ساتھیوں کو احتجاج کے سمندر میں دھکا دینے کی چال ہے۔
بجا کہ تحریک انصاف نے سول نافرمانی کے لئے مناسب ہوم ورک نہیں کیا ،صنعتکاروں ، تاجروں اور سرمایہ کاروں کی موثر تائید و حمایت اسے حاصل نہیں اور عام آدمی بھی بجلی، گیس کا بل نہ دے کر گھر کا کنکشن کٹوانے کا متحمل نہیں۔1977ءمیں پی این اے نے سول نافرمانی کا اعلان احتجاجی تحریک کے دوران اس وقت کیا جب کاروبار ریاست عملاً معطل تھا اور حکومت مفلوج و بے بس۔عوام لیڈر شپ کی بات ماننے پر تیار اور بھٹو کی ظالمانہ معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے سبب صنعتکاروں ، تاجروں اور سرکاری ملازمین کی اکثریت سول نافرمانی پر آمادہ مگر اس کے علاوہ بھی کچھ عوامل ایسے ہیں جو اس اعلان سے حکومت کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کرسکتے ہیں۔
عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف اور بین الاقوامی برادری ایک معقول لیڈر کی طرف سے جو امریکہ و یورپ میں بھی جان پہچان رکھتا ہے سول نافرمانی کے اعلان کو سنجیدگی سے لے گی۔ سرمایہ کار بھی حکومت کی مدد سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں، آئی ایم ایف کےوفد کا دورہ اسی تناظر میں منسوخ ہوا ہے، سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات واضح ہیں جبکہ تحریک انصاف کے حامی اور حکومت کے مخالف صنعتکاروں ،تاجروں اور سرمایہ کاروں کا طرز عمل بھی فیصلہ کن ہوگا‘‘ خیبر پختونخوا کی حکومت نے وفاقی محاصل اور بجلی و گیس کے بل کی وصولی سے انکار کردیا تو میزائیے کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام وزارت خزانہ کی مشکلات کئی گنا بڑھ جائیں گی اور قومی معیشت کا خسارہ 500 ارب سے کئی گنازیادہ ہوگا۔500 ارب روپے خسارے کا تخمینہ حکومتی اکابرین پیش کررہے ہیں۔
یہ اعلان تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے ایک چیلنج اور آزمائش بھی ہے لوگوں کو سرکاری ٹیکس، بجلی گیس کے بل نہ دینے کا اعلان کرکے اخلاقی اور قانونی طور پر خیبر پختونخوا کی حکومت اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت برقرار رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ حکومتی محاصل اور بل ادا کرنے سے انکار مگر خود قومی خزانے سے تنخواہیں، مراعات اور سہولتیں حاصل کرتے رہنا وہ دو عملی ہوگی جو عمران خان کے لئے تباہ کن ہوسکتی ہے۔ اب فی الفور اسمبلیوں سے استعفے اور کے پی کے حکومت کے خاتمے میں تحریک انصاف کی بچت ہے شاید عمران خان نے یہی مقصد حاصل کرنے کے لئے کور کمیٹی سے ذو معنی فیصلہ کرایا اور پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں کو ناک آئوٹ کردیا۔
میاں نواز شریف، ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان تینوں ان دنوں حالات کے جبر کا شکار ہیں اور ایک ایسی اعصابی جنگ میں مصروف جو ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ طاہر القادری اور عمران خان میاں نواز شریف کے زخم خوردہ ہیں اور ان کے کسی دعوے، یقین دہانی پر اعتبار کرنے سے قاصر۔ جو پوزیشن یہ دونوں لے بیٹھے ہیں اس سے پیچھے ہٹنا ان کے لئے سیاسی خود کشی ہے ہر گزرتے دن اور لمحے کے ساتھ یہ مصالحت اور مفاہمت کے عمل سے دور ہوتے جارہے ہیں جبکہ قوت برداشت ، توازن و اعتدال اور آئین و قانون کی پابندی سے عاری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد کی سڑکوں پر قابض سیاسی و مذہبی کارکن نامہربان موسم، مسلسل بے آرامی،حکومت کی سرد مہری اور دانشوروں کی طرف سے طنز و تضحیک کے سبب کسی وقت بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت سے دو چار ہوسکتے ہیں۔
کارکنوں کا زیادہ دنوں تک قیام اور عمران و طاہر القادری کے دھرنوں کا ایک دوسرے میں ادغام موجودہ سٹیٹس کو کے لئے تباہ کن نتائج پیدا کرسکتا ہے مگر تاحال حکومت کمیٹیوں کی تشکیل میں مصروف ہے اور اس کے وزراء اپنے بیانات کے ذریعے لانگ مارچ کے قائدین اور شرکاء کو اشتعال دلانے میں مشغول ۔کوئی یہ سوچنے پر تیار نہیں کہ سڑکوں پر گوشت پوست کے انسان بیٹھے ہیں فولادی مجسمے نہیں کہ زبان کے زخم سہتے رہیں گے اور کوئی ردعمل ہی ظاہر نہیں کریں گے۔ اب تک حکومت نے اپنے تساہل پسندانہ رویے، ناقص طرز حکمرانی اور اپوزیشن کے مطالبات سے چشم پوشی و بے نیازی سے بگاڑ کی راہ ہموار کی مگر اب غلطی کی گنجائش نہیں اور کسی غیر آئینی و غیر جمہوری اقدام کی راہ روکنا اس کی ذمہ داری ہے اور تاخیر نقصان دہ ہوگی۔
1977ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد برطانوی اخبار’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘نے لکھا ’’مسٹر بھٹو کو جو ملک کے واحدسربرآوردہ سیاستدان ہیں اس کارروائی کا الزام قبول کرنا چاہئے۔اپوزیشن والے تو سارے کے سارے کمزور لوگ تھے انہیں بہتر انداز میں ہینڈل کیا جاسکتا تھا‘‘6)جولائی1977ء)لوگ سڑکوں پر نکل آئیں تو تجزیوں اور تبصروں کی نہیں عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے، ہنگاموں اور بپھرے ہوئے جذبات میں معقولیت سب سے پہلا شکار ہوتی ہے مگر کوئی سمجھے تو!