• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوکر عیاں وہ خود کو چھپائے ہوئے سے ہیں
اہل نظر یہ چوٹ بھی کھائے ہوئے سے ہیں
یہ قرب و بعد بھی ہیں سراسر فریب حسن
وہ آکے بھی فراقؔ نہ آئے ہوئے سے ہیں
ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی آمد اور جلوہ افروزی کے حوالے سے فراق گورکھپوری کا مندرجہ بالا شعر پسند آیا سوچا قارئین کی نذر کردوں تماشہ اب اپنے عروج پر ہے۔ کہاوت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ اللہ جانے یہ کہاوت یہاں پوری ہوتی ہے یا نہیں کیونکہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ عمران خان نے ٹھنڈے اور بور اسلام آباد کے ماحول کو گرم اور رنگین کردیا۔ کتنی اُداس اور ویران ہوتی تھیں شاہراہ دستور کی شامیں۔ اور اب کتنی گرم اور رنگین ہیں! یہ بھی کمال ہے۔ سیاست ہو تو ایسی۔ لوگ اب بہادریار جنگ اورشورش کاشمیری کی تقریریں بھول گئے۔ جس طرح اب رفیع اور مکیش کے گانوں کی جگہ نئے گانے آگئے ہیں ’’آنٹی پولیس بلالے گی‘‘ وغیرہ ہرچیز تبدیل ہورہی ہے تو سیاست کے ڈھنگ کیوں نہ تبدیل ہوں۔ اب تو عمران خان کی کال پر کلفٹن بوٹ بیسن اور ملتان میں بھی چھوٹی چھوٹی دھرنیاں ہورہی ہیں۔ اُمید ہے کہ ہفتے کے روز یہ دھرنیاں دھرنوں میں بدل جائیں گی کیونکہ اس دفعہ لوگ ’’ویک اینڈ‘‘ کا یہی پروگرام رکھیں گے تفریح کی تفریح اور سیاست کی سیاست۔ جو بات میں بہت دنوں سے اپنے کالموں میں لکھ رہا تھا وہ آخر کار عمران خان کے منہ سے نکل گئی۔ میں تو حسب عادت احتیاط سے کام لے رہا تھا مگر کپتان ہے اُس نے امپائر کی اُنگلی اُٹھنے کا اشارہ دے دیا بلکہ دن بھی وہی دیا جو میرے ذہن میں تھا۔ ہفتے کا دن ان کاموں کے لئے اچھا ہوتا ہے کیونکہ پھر آگے اتوار کی چھٹی ہوتی ہے اور لوگ اپنے گھروں میں مصروف ہوتے ہیں۔ کارسرکار میں مداخلت کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ لوگ اخبارات بھی زیادہ پڑھتے ہیں اور ٹی وی کے آگے بیٹھ کر حالات حاضرہ سے باخبر بھی ہوتے ہیں۔ عوام نے تقریروں یا خطابات کی ایسی بھرمار الیکشن کے دنوں میں بھی نہیں دیکھی ہوگی۔ لیڈر 24گھنٹے موجود ہے۔ جس طرح کچھ دوائوں کی دکانوں پر اور ایمرجنسی کلینکس پر بورڈ آویزاں ہوتے ہیں ’’سروس 24 گھنٹے‘‘ اب سیاست میں بھی ایسے بورڈ آویزاں ہوسکتے ہیں۔ یعنی ’’لیڈر 24گھنٹے دستیاب ہے۔ آواز دیں طلب فرمادیں بہرحال یہ تو مذاق کی باتیں ہیں اور طبیعت کو کچھ ہلکا کرنے کے لئے تحریر کردیں تاکہ خشک ماحول میں کچھ چاشنی آجائے۔ مگر حقیقت کافی تلخ اور غور طلب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں رہنمائوں سے میرا مطلب ہے عمران خان صاحب اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی اپنے اپنے حلقوں میں خاصی مقبولیت ہے اور دونوں رہنمائوں کے چاہنے والے ان کی بات کو سچ سمجھتے ہیں اور اس پر پورا پورا یقین بھی کرتے ہیں۔ دونوں رہنمائوں کے کارکنوں میں خواتین کی بہت بڑی تعداد ہے۔ خاص طور پر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ خواتین کارکن 10اگست سے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے شیرخوار بچے ہیں جو کہ اسلام آباد کی چلچلاتی دھوپ بغیر شامیانے اور سائبان کے برداشت کررہی ہیں۔ بیت الخلا اور پانی پینے کا بھی کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ کھانا بھی حسب خواہش اور حسب ضرورت نہیں مل پا رہا۔ ایسے میں ان کی استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ اپنے قائدکے کہنے پر دھرنا دیئے بیٹھی ہیں وہ چند سو کی تعداد میں ہیں یا چند ہزار۔ یہ بات کوئی خاص غور طلب نہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ان کا جذبے اور حوصلہ برقرار ہے۔ دوسری طرف عمران خان صاحب کے ساتھ فیشن ا یبل، تعلیم یافتہ اعلیٰ گھرانوں کی آزاد خیال بے شمار خواتین کراچی۔ اسلام آباد، لاہور اور ملتان میں موجود ہیں اور وہ بھی ان کے دھرنے کو انجوائے کررہی ہیں اورا پنے گھروں سےاسلام آباد پہنچی ہوئی ہیں۔ نوجوانوں کی تعداد دونوں رہنمائوں کے ساتھ کافی ہےا ور تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ قادری صاحب کے دھرنے میں تو بتایا گیا ہے کہ 2300پی ایچ ڈی ہیں۔ بہرحال کتنے بھی ہوں یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے دونوں لیڈروں کی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں وزیراعظم نواز شریف مستعفی ہوجائیں گے۔ دوسری طرف نواز شریف صاحب نے اپنے ساتھ اسمبلی میں تمام پارٹیوں کو ملالیا ہے اور جمہوریت کی حفاظت کے لئے ڈٹ گئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مستعفی ہوکر ملک کو بحرانوں میں نہیں دھکیل سکتا۔ جمہوریت پٹری سے اترنے نہیں دیں گے۔ الیکشن کا آڈٹ ممکن ہے نہ ماورائے آئین مطالبات مانے جاسکتے ہیں۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ فوجی مداخلت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ادھر امریکہ نے بھی نواز شریف اور پاکستان کے جمہوری نظام کے بارے میں حمایت میں بیان جاری کردیا ہے ۔ اب صورتحال اگر یہ ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان اور قادری صاحب کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تو اس کے سیاسی مضمرات کیا ہوں گے اور آیا ان قائدین کے کارکن خالی ہاتھ لوٹنے پر راضی ہوجائیں گے جبکہ آپ نے ان کو پہلے ہی ریڈزون میں ڈنڈوں کے ساتھ بٹھایا ہوا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں بشمول پولیس کی کیا حکمت عملی ہوگی کہ ’’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ ایسی کوئی حکمت عملی قابل عمل نظر تو نہیں آرہی۔ کل کی اطلاع تھی کہ آئی جی اسلام آباد کو حکم نہ ماننے پر برطرف کردیا گیا ہے۔ بعد میں حکومت کی طرف سے بیان آیا کہ وہ چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ جبکہ آج کل تو سپاہیوں کی چھٹیاں اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی چھٹیاں منسوخ ہورہی ہیں ۔ پی این اے موومنٹ میں 1977میں لاہور میں بریگیڈیئر نیاز مرحوم نے اخباری اطلاعات کے مطابق عوام پر گولی چلانے سے انکار کردیا تھا جس پر ان کی سرزنش ہوئی اور ریٹائرکردیئے گئے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایک رینک بھی کم کردیا گیا تھا۔ مگر وہ عوام کے ہیرو بن گئے اور انہوں نے 2014تک خوشحال اور باعزت زندگی باہر گزاری۔ مجھے دو مرتبہ ان کے گھر لندن میں سابق صدر پرویز مشرف صاحب کے ساتھ دعوت کھانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مرحوم انتہائی مہمان نواز تھے۔ خدا انہیں جنت نصیب کرے۔ ابھی حال ہی میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ معاف کیجئے گا۔ بات چل رہی تھی کہ پھر حالات پر قابو کیسے پایا جائے گا؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے حالات پر قابوپانے کے لئے امپائر کا آنا ناگزیر ہوتا جارہا ہے اور کپتان کی بات میں وزن ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا یہ آئندہ ہفتے کے کالم میں ملاحظہ فرمایئے گا۔ ہوسکا تو آنکھوں دیکھا حال لکھ دوں گا۔ آخر میں حسب حال فراق ؔ کے اشعار ملاحظہ فرمایئے۔
حساس کس قدر ہے محبت کی زندگی
ہم بے خبر ہیں اور انہیں پائے ہوئے سے ہیں
تقریب دید ہیں غم ہجراں کی شدتیں
محسوس ہورہا ہے وہ آئے ہوئے سے ہیں
تازہ ترین