آج پاکستان تاریخ کے ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ کیایہ بدعنوان فریبی جمہوریت ملک کو اسی اندھیرے میں رہنے دے گی جہاں اکثر بدعنوان لوگ پارلیمنٹ کا حصّہ بنتے ہیں اور اربوں کھربوں کی لوٹ مار اور ہیرا پھیری کرتے ہیں... یا ہم وہ نظامِ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جہاں انصاف ، اہلیت اور قابلیت کا راج ہوگا ۔ اور ملک کو لوٹنے والوں کو عبرت نا ک سزائیں دی جاسکیں گی ؟
پاکستان میں جمہوریت جس انداز میں موجود ہے وہ بارہا ناکام ہوچکی ہے۔ جو لوگ موجودہ حالت ہی کو جاری رکھناچاہتے ہیں ان کی یہ دلیل ہوگی کہ جمہوریت کو آمریت کی مداخلت نے پنپنے کا موقعہ ہی نہیں دیا ۔ یہ بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بیشتر اوقات فوج کی مداخلت وسیع پیمانے پر ہونے والی لوٹ مار اور بدعنوانی روکنے کے لئے ہوئی جس نے اس ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا یہ ملک کی بقاء اور تحفظ کے لئے ضروری تھا اور اگر فوج ایسا نہ کرتی تو اب تک صورتحال نہایت ابتر ہوتی۔ ایسے ملک میں ’جمہوریت‘ ایک مذاق نہیں تو اور کیا ہے جہاں کی آدھی سے زائد آبادی غیر تعلیم یافتہ ہو اور باقی تعلیم یا فتہ میں سے بیشتر ایسے ہیں جو بمشکل ہی اخبار پڑھ سکتے ہیں یہ محض ’جاگیرداریت ‘ (feudocracy) (یہ لفظ میں نے تخلیق کیا ہے) ہے جمہوریت نہیں۔ مخصوص جاگیرداروں کا مضبوط شکنجہ ہے جو اس نظام کو اپنے تابع چلاتے ہیں جس کے لئے بدعنوانی سے حق رائے دہی خریدتے ہیں تاکہ اقتدار میں آتے ہی اربوں روپے لوٹ سکیں۔دراصل پاکستان میں جمہوریت قوم کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے جہاں چند لوگ غلط طریقوں سے امیر بن جائیں اور باقیوں کو غلامی کی کال کوٹھری میںدھکیل دیں۔اس غلامی اور کسمپرسی کی زنجیر کو صرف ایمان، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی اور جدّت طرازی سے توڑا جا سکتا ہے تاکہ مضبوط اوسط طبقہ ابھرکرسامنے آسکے۔ پاکستان میں تعلیم کو کبھی بھی ترجیح نہیں دی گئی سوائے اس وقت کے جب میں صدر مشرف کوتعلیم اور سائنس پر سر مایہ کاری کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہوگیا جس وقت میں وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی تھا اور بعد میں چیئر مین اعلی تعلیمی کمیشن تھا اور بہت تیزی سے ان منصوبوں پر عمل درآمد کر رہا تھا۔
ابھی حال ہی میں جناب احسن اقبال نے ٹیلی وژن پر انٹرویو کے دوران اس بات کا اعتراف کیاہے کہ میرے بحیثیت چیئرمین اعلی تعلیمی کمیشن کے دور میں اعلیٰ تعلیمی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنھوں نے جامعات کی کایا ہی پلٹ دی۔ وزیر برائے تعلیم جناب بلیغ الرحمٰن صاحب نے بھی گزشتہ ہفتے ٹیلی وژن پر ایک انٹرویو کے دوران کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے ۔میں ان دونوں حضرات کا نہایت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری خدمات کو اس طرح عوام کے سامنے سراہا۔میں ایک اور بات واضح کرتا چلوں کہ ایچ ای سی کے ذریعے جن منصوبوں پر عمل درآمد کیا گیا وہ میری1987میںتحریر کردہ کتاب ’بلیو بک‘ (Blue Book)میں تجویز کئے گئے تعلیمی و تحقیقی مسائل کے حل کی بنیادپر تھے اور ساتھ ہی ایچ ای سی کے دو ایگزیکیوٹو ڈائریکٹروں 2002 تا 2008، ڈاکٹر اکرم شیخ اور ڈاکٹر سہیل نقوی کے تجویز کردہ منصو بوں پر مشتمل تھے۔ ان منصوبوں کا ڈاکٹر احسن اقبال کے وژن 2010 (vision 2010)سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔ یہ معلومات بھی آئندہ کے لئے درست کرلینی چاہئیں۔
عمران خان اور علّامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے بیانات بالکل درست ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت اس وقت تک قابل عمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انتخابی نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہ لائی جائیں جو اس بات کی ضامن ہوں کہ صرف اور صرف ذہین قابل اور بے داغ کردار کے حامل افراد ہی حکومت کا حصّہ بنیں۔ایک نہایت سخت اور شفّاف نظام صرف قابلیت کی بنیادپر قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ایماندار اور پیشہ ورانہ نگرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔
مندرجہ ذیل تین اہم ترجیحات تمام معاملات کو صحیح کرنے کے لئے ضروری ہیں: (1) پہلی ترجیح ان معاملات میں تبدیلی لاناہے جس کے ذریعے قومی و صوبائی اسملیوں کے لئے امیدوار وں کو انتخا بات کیلئے چنا جاتا ہے۔ یہ لوگ اعلی تعلیم یافتہ، معاشرے میں اپنے اچھے کارناموں کی بنیاد پر پر وقار کردار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہوں اور یہی ہمارے آئین کی شق نمبر 62 اور 63 کے تحت ضروری بھی ہے۔ لہٰذا انتخابی امیدوار کی اہلیت کیلئے تعلیمی قابلیت (جیساکہ ہمارے پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایرا ن میں کم از کم اہلیت ماسٹرز رکھی گئی ہے )کا نفاذ ہو۔ کم از کم 90 دن امید واروں کو بحیثیت انتخابی رکنیت کیلئے اہل قرار دینے کیلئے اوران کے کوائف کی جانچ پڑتال کیلئے رکھے جائیں۔یہ کمیشن سپریم کورٹ کےچیف جسٹس ( حکومت اور سیاسی پارٹی کے مشورے کے بغیر) تقرر کریں۔آئین میں پارلیمنٹ کے کردارکی تصحیح کی ضرورت ہے جس کے تحت وزراء کا انتخاب چیف ایگزیکیوٹو پارلیمنٹ کی بجائے براہ راست ان افراد میں سے کرے گا جو کہ اپنے شعبوں میں بین الاقوامی شہرت کے حا مل ہوں ۔ اراکین پارلیمنٹ کی ذمّہ داری قانون سازی اور ان کے تحت دیگر پروگراموں کے نفاذ کی نگرانی کی حد تک ہونی چاہئے۔ انہیں وفاقی و صوبائی کابینہ کے وزراء بننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس طرح ایک ہی تیر سے دو نشانے لگیں گے، ایک طرف تو انتخابی عمل سے لالچ کا عنصر مکمل طور پر ختم ہوجائے گا اور دوسری طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد حکومت میں شامل ہوسکیں گے۔ ہمارے لئے صدارتی نظامِ جمہوریت ، برطانو ی پارلیمانی نظامِ جمہوریت سے کہیں بہتر ثابت ہوگا۔ دیگر ضروری اقدامات (مثلاً نئے الیکشن کمیشن ) کے بارے میں گزشتہ مقالات میں ذکر کیا جا چکا ہے۔
(2) اوّلیں ترجیح تعلیم ، سائنس وٹیکنالوجی اور جدّت طرازی کو دی جانی چاہئے تاکہ پاکستان اپنی حقیقی دولت، یعنی اپنی افرادی قوت سے بھر پور طریقے سے مستفید ہو سکے اور علم پر مبنی معیشت کی طرف قدم بڑھا سکے ۔ پاکستان اپنی مجموعی پیداواری صلاحیت (GDP) کا صرف 2% تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔جو کہ ہمیں دنیا کے ان آٹھ ممالک میں شمار کرتا ہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں ... یہ نہایت شرم کا مقام ہے۔ پی پی پی کی گزشتہ کابینہ نے ایک پالیسی منظور کی تھی جس کے تحت GDP کا 7% تعلیم پر صرف کیا جائے گا لیکن وہ محض ایک دھوکہ تھا کیونکہ نہ کبھی اتنا سرمایہ مختص کیا گیا نہ ہی 2% میں کوئی اضافہ ہوا۔میں ہر مرتبہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمیں ہنگامی قومی تعلیم (National Education Emergency) کا اعلان کرناچاہئے۔تاکہ اس شعبے کو بھی قومی ترقیاتی منصوبوں میں اعلیٰ ترجیح حاصل ہو سکے۔ اس ضمن میں دو اہم مسئلوں سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے : (ا)ا اصلاحات کے نفاذ کے لئے انتظامی امور بالخصوص نصاب، اچھے اساتذہ کی افزائش، امتحانی نظام اور بین الاقوامی سطح پر رائج معیار سے مسابقت (ب) بین الاقوامی سطح سے مسابقتی فنڈنگ۔(3) ہمارے نظام عدلیہ میں بنیادی اصلاحات ضروری ہیں تاکہ بدعنوانی اور دہشت گردی کے مقدمات کا فیصلہ جلد اور فوری کیا جاسکے اس کے لئے 60 دنوں سے زیادہ کا وقت نہ دیا جائے۔ یہ فیصلے خصوصی قانون کے تحت عام عدالتوں کے بجائے فوجی عدالتوں میں کئے جائیں اور تحفّظی وجوہات کی بناء پر ججوں کے نام صیغہِ راز میں رکھے جائیں۔ NAB مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کے بجائے ان کا بیجا تحفظ کرتاہے جس کی بدولت بد عنوانی کے معاملات بڑھتے جا رہے ہیں ۔تمام بدعنوانوں اور دہشت گردوں کو فوری اور عبرتناک سزائیں دینے (خواہ کتنے ہی پر اثر اور طاقتور کیوں نہ ہوں) سے ہی حالات جلد بہتر ہوں گے۔
لیکن سب سے اہم سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کون کرے گا ؟ ظاہر ہے کہ یہ اصلاحات اسوقت تک لا گو نہیں ہو سکتیں جب تک کہ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال افرادکی مکمل حمایت حاصل نہ ہو جو اس معاملے کی نزاکت و اہمیت کو سمجھیں کہ ہمارے انتظامی نظام میں کمی ہے۔ اس کے لئے ہماری عدلیہ کی مداخلت ضروری ہے تاکہ حقیقی جمہوریت رائج ہو سکے ۔ پاکستان میں ماہرین پر مشتمل ایک غیر جانبدار عبوری حکومت 3-4 سال کے عرصے کے لئے ہونی چاہئے جو اصلاحات پر عمل درآمد کرسکے اور مجرموں کو گرفتار کیا جائے اور سزائیں سنائی جائیں۔ اس طرح ایک ایسا نظام قائم ہوگا جس سے مستقبل میں بدعنوان لوگ اقتدار میں آنے سے کترائیں گے اور عوام کو لوٹا نہیں جاسکے گا۔