• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی عقلمند کا سونے کی روشنائی سے لکھا جانے والا قول یوں ہے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے زندگی میں درپیش آنے والے تلخ مسائل کو بھول جانا لیکن اس سے حاصل ہونے والے ’’سبق‘‘ کو یاد رکھنا ضروری ہے ۔ ظاہر ہے ماضی کا ماتم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا البتہ مستقبل میں غلطیوں کی اصلاح کرنا ہی ماضی کے دُکھوں کی تلافی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت اُن موقع پرست جاگیرداروں ، پیروں اور چوہدریوں پر مشتمل تھی جو پہلے کانگریسی یایونینسٹ اور قیامِ پاکستان کے مخالف تھے لیکن جب انہیں یقین ہوگیا کہ پاکستان بننا ناگزیر ہے تو مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ۔ کانگریس میں بڑے بڑے سیاسی زعماء کی موجودگی میں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی لیکن مسلم لیگ میں آتے ہی وہ سب سے بڑے ’’ کھڑپینچ ‘‘ بن گئے ۔ قائدِ اعظم کی لیڈر شپ میں مسلم لیگ ، مسلم عوام کی امنگوں کے لحاظ سے تو ’’ عوامی پارٹی ‘‘ بن گئی لیکن دراصل وہ پارٹی سے زیادہ ’’عوامی ہجوم ‘‘ تھا۔ ایسے ہی جیسے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ... جسے منظّم سیاسی اور جمہوری پارٹی بننے کا موقع یوں نہ مل سکا ۔ جبکہ پی پی پی کی طرح عوامی حمایت حاصل کرتے ہی مسلم لیگ کو حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں اور قائدِاعظم جنھیں اپنی جیب کے ’’ کھوٹے سکے ‘‘ قرار دیتے تھے اور جن کا مسلم لیگ سے دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔ اس نوزائیدہ مملکت کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے ۔ چونکہ ان کا سیاسی شعور انتہائی نا پختہ تھا۔ وہ صرف اپنی جاگیریں بچانے کے لئے ’’ موقع پرستیوں ‘‘ اور ’’ سیاسی وفاداریوںکو بیچنے ‘‘ کی ایسی دوڑ لگ گئی جس سے وہ عوامی حمایت سے اس تیزی کے ساتھ محروم ہوئے کہ 54کے الیکشن میں مشرقی پاکستان کی 300صوبائی سیٹوں میں مسلم لیگ صرف نو نشستیں حاصل کر سکی۔ چونکہ مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی طرح بڑے بڑے جاگیردار اور پیرموجود نہیں تھے لہٰذا مسلم لیگ کا قومی کردار ختم ہوکر رہ گیا۔ یہ وحدتِ پاکستان پر پہلی مرتبہ کاری ضرب تھی ۔ 53ء میں پاکستان میں پہلا جزوی مارشل لا جو لاہور میں لگا یا گیا۔ یہ ایک طرح سے 58ء کے ملک گیر مارشل لا کا ٹریلر تھا۔ سیاستدانوں اور سیاسی عمل کی بے وقعتی کے بعد ایوب خان کی قیادت میں پورے ملک میں مارشل لا نافذ کردیاگیا۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ یہ سب کچھ اپنی جاگیریں اور اقتدار بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔ لہٰذا پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ختم ہونے کی بجائے اور مضبوط ہوگیا جبکہ ہندوستان کے برعکس پاکستان کو عوامی آئین بنانے کے لئے 25برس تک انتظار کرنا پڑا کیونکہ عوامی آئین غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت سے روکتا ہے اس لئے ایک جمہوری آئین کو بننے سے روکنے میں طرح طرح سے روکاوٹیں ڈالی گئیں ۔ کبھی تھیوکریسی کو نظر یہ پاکستان کا نام دے ڈالا اور کبھی جمہوریت کوہی سرے سے غیر اسلامی قرار دے دیا۔ حالانکہ پاکستان کا وجود ایک جمہوری طریقے یعنی 46ء کے عام انتخابات کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔
58 میں ایوب خان کے مارشل لا نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے جو بیج بوئے اور جنرل یحییٰ خان کے دور میں یہ پکی ہوئی فصل بن گئے۔ یہاں ان حکمرانوں کے ہم نوالہ وہم پیالہ وہی کردار تھے ۔ قائدِ اعظم کا پاکستان ختم ہوگیا لیکن اس ’’ ٹولے ‘‘ کی ہوس ِ اقتدار ختم نہ ہوئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں آئین جیسے بنیادی مسئلے کو تو حل کرلیا گیا لیکن سیاسی عمل کی پختگی کے خوف سے یہ ٹولہ دوبارہ سازشیں کرکے ملک کو ایک مرتبہ پھر انارکی کا شکار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ضیاء کا مارشل لا تو اس قوم کے لئے ام المصائب ثابت ہوا۔ اس کے دوراقتدارنے پاکستان کو عالمی طاقتوں کی باہمی جنگ کا اکھاڑہ بنا دیا ۔ پرویز مشرف نے زبان سے گو اعتدال پسندی اور روشن خیالی کا نعرہ لگایا لیکن درحقیقت اس کادست و باز وہی ’’ ٹولہ ‘‘ تھا جس نے اسے خدائی اختیارات سونپ دئیے جن کے ذریعے وہ آئین میں من مانی تبدیلیاں کرنے لگا اور اس نے اپنے پیشروئوں کی طرح پاکستان کو امریکی کالونی بنا کر رکھ دیا۔
آج ہماری جو حالت زارہے اس کا تاریخی سبق یہی ہے کہ-1 سازشیوں کے ٹولے نے آج تک پاکستان میں حقیقی جمہوری عمل کو روکے رکھا ہے ۔ 73ء کے متفقہ جمہوری آئین آمرانہ ترامیم ، الیکشنوں میں دھاندلیوں اور مذہبی منافرت کے ذریعے اپنے خود ساختہ نظاموں یعنی جنرل ایوب کے بی ڈی سسٹم ، جنرل یحییٰ کے مارچ 70ء کے LFO، ضیاء کے شورائی نظام اور جنرل پرویز کے جی ڈی سسٹم کے ذریعے پاکستان کو سیاسی نظاموں کی تجربہ گاہ بنا کر رکھ دیا۔حقیقی جمہوری نظام اگرچہ اپنی ابتداء میں نا پختگی کی وجہ سے کئی مسائل سے دوچاربھی ہوتا ہے لیکن اس کا تسلسل ہی اس کی پختگی اور کامیابی کا ضامن ہوتا ہے ۔ ایک بہتی ہوئی ندی کی طرح جس میں اگر گندگی بھی ہو تو وہ اس کی روانی کیوجہ سے آہستہ آہستہ کناروں کی طرف آنے لگتی ہے اور اس کا پانی صاف ہونے لگتاہے کیونکہ بہتا ہوا پانی ہی صاف ہوتا ہے جبکہ ڈکٹیٹر شپ اس تالاب کی مانند ہے جس میں ڈالا ہوا صاف پانی بھی نکاس نہ ہونے کی وجہ سے کائی زدہ اور گدلا ہو جاتا ہے ۔ اس لئے تاریخ کا پہلا سبق یہ ہے کہ جمہوری عمل کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ جاری رہنا چاہئے۔
-2 تاریخ کا دوسرا سبق یہ ہے کہ صدیوں کے تجربے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مذاہب نے انسانی معاشرے میں اپنے مثبت اثرات جو ’’ آفاقی سچائیوں ‘‘ کی شکل میں ہیں، اس حد تک گہرے کردئیے ہیں کہ وہ انسانوں کی زندگی کا جزولا ینفک بن چکے ہیں اور تمام دنیا کے جمہوری ممالک کے دسا تیر کی اساس ہیں۔ جھوٹ بولنا، کسی کا حق مارنا ، چوری یا قتل کرنا وغیرہ وغیرہ تمام دنیا کے قوانین میں قابلِ سزا جرائم ہیں۔ انسانوں سے تعلقات کے بارے میں، یا جنگ اور امن کے زمانے کے تمام قوانین تمام مذاہب کی تعلیمات کا نچوڑ ہیں۔ مذہبی لحاظ سے دیکھا جائے تو آمریت شرک کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ آمرِ مطلق صرف خدا کی ذات ہے ۔3 .تاریخ کا تیسرا سبق یہ ہے کہ جذبات کی بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پر اپنی دوستیاں اور دشمنیاں قائم کی جائیں اور تاریخ کا یہ تیسرا سبق صرف اسی صورت میں عملی شکل اختیار کر سکتا ہے جب پہلے دو اسباق پر عمل کیا جائے اور عوام کی منتخب پارلیمنٹ اس امر کا فیصلہ کرے کہ کس کے ساتھ کتنی دوستی یا دشمنی رکھنی ہے۔ کوئی فرد واحد ہمیں افغانستان کی دلدل میں یا بھارت کے ساتھ اندھی دشمنی کی آگ میں نہ دھکیل سکے۔ دوستیوں اور دشمنیوں کے حوالے سے یہ بھی تاریخ کا ایک سبق ہے کہ ہمیں ہندوستان کے بارے میں حقیقت پسندی کا ثبوت دیناچاہئے ۔ اگر ہمسائیگی میں دشمنی کی آگ لگی ہو اور اپنے ملک کے اندر ایک دوسرے سے نفرت کے الائو سلگ رہے ہوں تو آپ کب تک بچ سکتے ہیں؟
ہمارے پاس من حیث القوم شاید بہت زیادہ وقت نہیں ۔ مزید تباہی کو روکنے کے لئے اوپر بیان کئے گئے تین اقدامات کو یقینی بنانا ہوگا۔ اول : جمہوری عمل کا ہر حال میں تسلسل (دوئم) سیاست اور مذہبی اجارہ داری کو علیحدہ کرنا اور (سوئم)بھارت کے تناظر میں اپنی دوستی اور دشمنی کو از سر نو تعین کرکے دوستانہ تعلقات کے نئے باب شروع کرنا...گفت و شنید اور دوستانہ ماحول میں متنازعہ امور بھی حل ہوسکتے ہیں،دشمنی اور جنگ سے نہیں ۔ اس کے لئے ہمیں ابھی سے شروعات کرنی ہو گی۔
تازہ ترین