• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر گزشتہ ہفتے اسرائیل نے گھٹنے ٹیک کر حماس کی شرائط پر معاہدہ کر لیا۔ اس ایک ماہ کی جنگ میں حماس نے بھی اسرائیل کو بڑا مالی و جانی نقصان پہنچایا ہے۔ ثقہ ریسرچ کے مطابق پوری دنیا میں 2 کروڑ 3 لاکھ کل یہودی ہیں۔ ان میں سے 81 لاکھ 15 ہزار اسرائیل میں آباد ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد پونے 2 ارب کے قریب ہے۔ اسرائیل کے چاروں طرف مسلم ممالک ہی آباد ہیں۔ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل کی بقاء و تحفظ کے لئے متحد ہیں۔ ان کے مقابلے میں درجنوں عرب اور بیسیوں دیگر اسلامی ممالک راکھ کا ڈھیر ثابت ہورہے ہیں۔حماس راکھ کے اس ڈھیر میں بچی وہ چنگاری ہے جس سے اسرائیل کو اپنا وجود خطرے میں دکھائی دیتا ہے، چنانچہ وہ اب ا س چنگاری کو بھی بجھانے کے لئے اپنی درندگی کا سارا زور لگارہا ہے،مگر حالات بتارہے ہیں یہ چنگاری بڑی سخت جان ہے۔ اسے بجھاتے بجھاتے صہیونیوں کے اپنے ہاتھ بھی جل سکتے ہیں۔ اسرائیل کو 58 مسلم ممالک اور پونے 2 ارب مسلمانوں میں سے اگر کسی سے سب سے زیادہ خطرہ ہے تو حماس کے 15 ہزار مزاحمت کاروں اور اس کی تنظیم قسام سے ہی ہے۔ حماس کا ہیڈکوارٹر غزہ شمار ہوتا ہے۔ غزہ رقبے کے اعتبار سے کراچی کے ایک محلے اور اسلام آباد کے ایک سیکٹر کے برابر ہے، لیکن حماس کے ماہرین نے انتہائی فنی مہارت سے سرنگیں کھود کھود کر غزہ کو دو منزل بنادیا ہے۔ حماس نے انٹی میزائل ٹیکنالوجی میں اتنی مہارت اور کامیابی سے حاصل کرلی ہے کہ کئی اسرائیلی میزائلوں کو ہوا میں ہی ناکارہ اور تحلیل کردیا جاتا ہے۔ حماس سے وابستہ تمام لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذہین ترین اور فنی مہارت اور سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ تھی 2006 ء میں حماس صاف شفاف انتخابات کے ذریعے بھاری مینڈیٹ سے اقتدار میں آئی لیکن دنیا میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکہ نے اسے قبول نہ کیا۔ وہ امریکہ جس نے طالبان پر جمہوریت اور خواتین دشمنی کا الزام لگایا تھا لیکن حماس تو ایسی نہ تھی۔
ہماری معلومات کے مطابق دنیا بھر میں موجود 193 ممالک میں موجود تمام حکومتی ڈھانچوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ کابینہ تھی۔ حماس کی کابینہ میں وزارتِ صحت ایک ماہر ڈاکٹر۔ وزارتِ قانون ایک ماہر بیرسٹر۔ وزارتِ خواتین ایک پڑھی لکھی خاتون۔ وزارتِ خزانہ ایک ماہر معاشیات۔ وزارتِ تعلیم عربی اور مختلف زبانوں کے ماہر ایک ادیب اور شاعر کے سپرد تھی، لیکن اس کے باوجود امریکہ نے اسے قبول نہیں کیا۔ امریکہ نے جس طرح طالبان کو ناکام بنانے کے لئے شمالی اتحاد کا سہارا لیا بالکل اسی طرح فلسطین میں حماس کو ناکام بنانے کے لئے الفتح کو استعمال کیا گیا ہے لیکن حماس نے جھکنے اور دبنے سے انکار کردیا۔حماس کے پاس جتنی فنی اور عسکری مہارت ہے اتنی سیاسی نہیں اور سیاسی طاقت کے بغیر عسکری قوت اور فنی مہارت کو منوایا اور تسلیم کروایا نہیں جاسکتا ہے۔ پوری دنیا کے 240 ممالک اور 58 مسلم ممالک میں سے صرف دو ملک ہی کھل کر حماس کی حمایت اور پشت پناہی کرتے ہیں۔ اس کا اعتراف شیخ یٰسین شہید بھی کرچکے ہیں۔ اسرائیلی بمباری میں فلسطینی مسلمان کا جب کوئی گھر تباہ ہوتا ہے تو یہی ممالک اسے تعمیر کرواکر دیتے ہیں۔ اس جنگ میں حماس نے اسرائیل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔عرب ویب سائٹ ’’الردادی‘‘ اور ’’الشہاب‘‘ کے مطابق اس جنگ میں 900 اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں۔ 2100 زخمی اور معذور ہوئے ہیں۔ 30 کے قریب کو اغوا کیا گیا ہے۔ 150 میزائل ناکارہ اور بیسیوں ٹینک تباہ کیے گئے ہیں۔ عرب ذرائع ابلاغ اور عالمی آزاد اداروں کے مطابق ہر جنگ میں اسرائیل کو مالی و جانی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق آغاز سے آج تک فلسطینی مجاہدین نے 1400 جوابی حملے کیے ہیں جن میں ہزاروں اسرائیلی ہلاک اور ایک لاکھ سے زائد زخمی و معذور ہوئے ہیں۔
گزشتہ سات بڑی جنگوں 1948ء کی عرب اسرائیل، اکتوبر 1973ء کی جنگ، 1967ء تا 1970ء اسرائیل اور مصر کی جنگ، 1967ء کی 6 روزہ عرب اسرائیل جنگ، 1982ء کی لبنان جنگ، نہر سویز بحران اور 2006ء کی لبنان کے ساتھ جنگ کے علاوہ 19895 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیل میں ہونے والے خودکش حملوں میں 571 اسرائیلی مارے گئے۔ ایک عربی رپورٹ کے مطابق 1948ء سے 1998ء تک 20093 اسرائیلی فوجی مارے گئے، 75 ہزار شدید زخمی ہوئے۔ ایک لاکھ 32 ہزار مختلف جسمانی اعضاء محروم ہوکر معذور ہوئے۔ 25 ہزار کے قریب نفسیاتی اور ذہنی مریض ہوئے۔ 2010ء میں اسرائیل نے اپنے ان مرنے والے فوجیوں کی یاد میں ایک بڑی تقریب بھی منعقد کی تھی۔ اس میں ان کو سلام پیش کیا گیا تھا کہ انہوں نے اسرائیل کے تحفظ اور بقاء کے لئے جانیں دی ہیں۔ خود اسرائیلی وزارت خارجہ کی رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2010ء تک 10 سالوں میں 1194 اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں اور 7 ہزار سے زائد زخمی اور معذور ہوئے جبکہ 150 کے قریب لاپتہ ہوئے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5 سالوں میں 1074 صہیونی فوجی مارے گئے اور 7520 زخمی اور معذور ہوئے ہیں۔ 2014ء تک مجموعی طور پر 5276 صہیونی فوجی مارے جاچکے ہیں ، جبکہ 2014ء کی حالیہ جنگ میں 600 سے زائد اسرائیلی بھی مارے گئے ہیں جبکہ ناقابلِ تلافی مالی نقصان بھی پہنچا ہے۔ خود اسرائیلی زعماء اور یہودی راہنما دبے لفظوں میں اعتراف کررہے ہیں کہ اس جنگ میں بدنامی زیادہ ہوئی اور فائدہ کچھ نہ ہوا۔
تازہ ترین