سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں سنیٹر روبینہ خالد کا گلہ بجا ہے کہ پارلیمینٹ ہائو س کے سامنے خیمہ بستی آباد ہوگئی ہے اوپن باتھ روم قائم ہیں اور خوبصورت گرین ایریا کھوکھا شہر بن گیا ہے ۔ سی ڈی اے کارروائی کیوں نہیں کرتا؟
اسلام آباد کوئی عام شہر نہیں۔ یہ اس مقدس و پوتر آسمانی مخلوق کا مسکن ہے جو پورے پاکستان کی ان داتا اور حکمران ہے۔ پارلیمینٹ ہائوس اس کا ’’تکیہ‘‘ ہے اور سید خورشید شاہ، محمود خان اچکزئی، زاہد خان، روبینہ خالد اس کے تکیہ دار۔ نوجوان نسل سے معذرت کہ تکیہ اور تکیہ دار کے لفظ سے وہ کافی حد تک ناآشنا ہے۔ قبرستان کے نکڑ پر مست ملنگ لوگوں کی آرام گاہ سمجھ لیں جہاں یہ اکٹھے ہو کر موج مستی کرتے، دنیا جہاں کی فکر سے آزاد ہو کر عالم بالا کی خبر لاتے، ہر ایک کی خبر لیتے اور اونچے سروںمیں بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کاراگ الاپتے ہیں۔
گریڈوں کا یہ شہر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بسایا جس کو کراچی سے اسی طرح گھن آتی تھی جس طرح ہمارے عوامی نمائندوں کو ایک ماہ سے آباد خیمہ بستی سے آنے لگی ہے۔ فیلڈ مارشل کراچی میں سرمایہ داروں اور تاجروں کے بیوروکریسی سے ملاپ کو ناپسندکرتے تھے اور مقامی آب و ہوا کے شاکی جو ان کے بقول چستی کو سستی میں بدل دیتی ہے وہ بیوروکریسی کو صنعت و تجارت کے اثرات سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے تاکہ وہ لین دین میں ملوث نہ ہومگرپورے ملک سے کٹااسلام آباد بیوروکریسی کو خوب راس آیا جہاں بات پھیلنے کا اندیشہ نہ ہنگامے پھوٹنے کا خدشہ۔ البتہ راولپنڈی سے قربت کی بنا پر ہمارے حکمران اور بیوروکریٹس جی ایچ کیو کی براہ راست نگرانی میں ضرور آگئے۔ انجام معلوم۔
اسلام آباد خوبصورت شہر ہے کسی زمانے میں ہمارے بنگالی بھائیوں کو دارالحکومت کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی تھی۔ نازک مزاج اسلام آبادیوں نے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے ان بنگالیوں کو چلتا کیا تاکہ ایک فیصد مقامی آبادی کی نظر میں 99فیصد قابض پردیسیوں کے عیش و آرام میں مخل نہ ہوسکیں۔ یہ پردیسی ملک کے مختلف حصوں سے جمع ہوئے، شہر کے رہائشی رقبے اور ملک کے وسائل و اختیارات پر قابض ہوئے اور اب نہیں چاہتے کہ کوئی دوسرا حسن و جمال کے پیکر اس شہر میں داخل ہو کر حق ملکیت جتلا سکے۔ یہ اپنے ماضی، اپنے آبائو اجداد کے رہن سہن اور 18 کروڑ آبادی کی اکثریت کے بودوباش کو بھول چکے ہیں انہیں بندہ مزدور کے تلخ اوقات کا احساس ہے نہ عوام کے مسائل، مصائب اور مشکلات کی فکر۔
صرف عوامی نمائندوں ہی نہیں اسلام آباد کی معطر صبحوں، گل رنگ شاموں کے عادی نازک اندام و نازک مزاج اور گلاب چہرہ شہریوں کو بھی عارضی خیمہ بستی سے گھن آتی ہے اور اس بستی کے مکینوں کی شبانہ روز سرگرمیوں سے وحشت ہوتی ہے۔ محمود اچکزئی سے لے کر حاصل بزنجو اور مولانا فضل الرحمان نے پارلیمینٹ کے اجلاس میں ان خانہ بدوشوں کے بارے میں جوکہا وہ اسلام آبادکی آب وہوا کا اثر تھاورنہ ان میں سے کون نہیں جانتا کہ خیمہ بستی کے مکین کچھ نیا نہیں کررہے ۔ پاکستانیوں کی 95فیصد آبادی کا طرز ِزندگی ایسا ہی ہے بلکہ اس سے کہیں بدتر۔
صرف دیہی علاقوں میں نہیں چھوٹےشہروں، قصبات اور لاہور، کراچی، ملتان، پشاور کے نواح میں لوگ اسی طرح رہتے ہیں۔ ایک کمرے میں پوراخاندان اور ساتھ ہی گائے بھینس بکری ،گدھے گھوڑے کی کھرلی۔ گلی کوچوں میں گلے سڑے پھلوں، سبزیوں، چنے، قلفی کی ریڑھیاں، سگریٹ پان کے کھوکھے، اوپن باتھ روم اور دیواروں کے ساتھ لگ کر یا کسی جھاڑی کی اوٹ میں رفع حاجت کا اہتمام۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے کیونکہ ہمارے حکمرانوں، عوام کے خون پسینے پر پلنے والے ریاستی اداروںو عہدیداروں اور منتخب عوامی نمائندوں نے انہیں جدید شہری سہولتوں سے محروم رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور اپنا حق مانگنے والوںکو منتخب ریاست کا باغی، دہشت گرد، سسٹم کا دشمن گردانا جاتا ہے۔
کھمبوں سے غیرقانونی بجلی حاصل کرنا اور سرکاری پائپوں سے پانی لیناصرف غریبوں، کمزوروں اور خانہ بدوشوں کے لئے جرم ہے طاقتور اور باوسیلہ لوگ کراچی، پشاور، گوجرانوالہ اور فیصل آبادمیں یہ کام ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔چوری کی بجلی سے فرنس کی بھٹیاں اور فیکٹریاں چلتی ہیں۔ بڑے بڑے محلات روشن اور کنڈے سے پورے محلے کو بجلی سپلائی ہوتی ہے مگر مجال ہے پارلیمینٹ میں کسی نے شور مچایا ہو یا اسلام آباد کے قریب کھیتی باڑی کے لئے الاٹ ہونے والے فارم ہائوسزکو پرتعیش محلات، شادی ہالوں، نائٹ کلبوں میں تبدیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ بنا ہے عیش تجمل حسین خان کے لئے۔
یہ خیمہ بستی نودولتیوںاور وسائل خوروں کے لئے عجوبہ ہوگی مگر 95 فیصد عوام کے لئے نہیں جو صدیوں سے اس کے عادی ہیں کیونکہ ان کی محنت، مشقت اور ریاضت کا پھل کھانے والے جاگیرداروں، تمنداروں، سرمایہ داروں، تجارت پیشہ سیاستدانوں اور سول و فوجی حکمرانوں نے آج تک انہیں آسودہ و خوشحال دیکھنے کی خواہش کی نہ انہیں جدید شہری سہولتوں سے بہرہ ور کرنے کی شعوری کوشش جو اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کے پوش علاقوںمیں رہنے والوں کو دستیاب و میسر ہیں۔
یہ خیمہ بستی دو چار بڑے شہروں کے سوا باقی ماندہ پاکستان کی سو فیصد حقیقی اور سچی تصویر ہے اور ملک کے طول و عرض میں بسنےوالی محروم و بدقسمت رعایا کے شب و روز کی داستان۔ اقبال و قائداعظم نے ان کی تقدیر بدلنے کے لئے آزاد وطن کا خواب دیکھا مگر ان کے جانشینوں نے نوآزاد ریاست کو طاقتوروں، آمروں، غاصبوں اور ظالموں کی تجربہ گاہ بنا دیا۔ دنیا بدل گئی مگر یہ ظالم بدلے نہ ان کے طور طریقے اور نہ طرز ِ حکمرانی۔ آج بھی سیلاب آئے یا بارش متاثر صرف کمز ور اور غریب ہوتے ہیں۔ حکمران طبقے کے کھیت، فیکٹریاں اورمحلات بچانے کےلئے ریاستی اہلکار پیش ،وسائل اور جملہ انتظامات۔ غریب ماں کے دو بچوں کو زہریلے سانپوں سے کوئی بچانے والا ہے نہ وہاڑی میںمعصوم بچوں کے لئے آکسیجن کا انتظام کہ انہیں موت کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔
امرا، سیاستدانوں اور حکام کو سی ڈی اے پر غصہ ہے کہ وہ ان غریبوں، کمزوروںاورمیلے کچیلے شہریوں کو زور زبردستی سے نکال باہر کرنے میں سستی کیوں دکھارہا ہے۔ غریبوں کا دم بھرنے والے عوامی نمائندے ایک ماہ میں ان خانہ بدوشوں سے اکتا گئے ہیں اور حکومت، فوج، پولیس ، انتظامیہ اور سی ڈی اے سے بار بار کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں مگر قابل داد ہیں یہ محروم، مظلوم، بے کس، بے بس اور غریب و بے آسرا عوام جو ابھی تک ظلم و زیادتی کے موجودہ نظام سے اکتائے ہیں نہ حکمرانوں اور اپنے منتخب نمائندوں کی مسلسل بے نیازی سے۔ اپنے اپنے ظرف اورحوصلے کی بات ہے؎
شمع تجھ پہ یہ رات بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
سنیٹر روبینہ خالد کابیان پڑھ کر مجھے سرائیکی زبان کا میر شاکر شجاع آبادی یادآیا؎
بھلا خوشیاں کہیں کوں چک پیندن
کوئی خوشی ٹھکرا پتہ لگ ویندے
جیڑھی چیخ پکار کوں پھند آہدیں
ایہوتوں چا بنا پتہ لگ دیندے
جے روون اپنے وس ہوندے
توں روڈ کھلا پتہ لگ دیندے
جیویں عمر نبھی ہے شاکر دی
ہک منٹ نبھا پتہ لگ دیندے