• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں جاری دہشت گردی میں ایک بار پھر شدت آ گئی ہے ۔ ویسے تو کراچی میں گزشتہ تقریباً تین عشروں سے خونریزی ہو رہی ہے ۔ اس میں کبھی کبھی تھوڑے دنوں کا وقفہ آتا ہے ، جو مہینوں کا نہیں بلکہ صرف دنوں کا وقفہ ہوتا ہے ،یا پھر بے گناہ لوگوں کے قتل کا روزانہ اوسط پانچ سے کم ہو جاتا ہے لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہوتی ۔ کبھی کبھی اس میں بہت زیادہ شدت آجاتی ہے ۔ آج کل بھی روزانہ اوسط پانچ سے بڑھ گیا ہے ۔ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ ’’ ہائی پروفائل ‘‘ ٹارگٹ کلنگ بھی ہورہی ہے ۔ کراچی میں اب تک جتنے بے گناہ لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ، اتنے دنیا کے کسی ’’ وار زون ‘‘ میں بھی نہیں مارے گئے ہوں گے ۔ ایک زمانہ تھا ، جب پاکستان کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بیروت دنیا کا خطرناک ترین شہرہے اور کسی دوسرے شہر میں بدامنی ہوتی تھی تو کہا جاتا تھا کہ وہ شہر بیروت بن گیا ہے ۔ کراچی کی بدامنی کے ابتدائی دنوں میں بھی یہی کہا جاتا تھا کہ یہ شہر بیروت بنتا جارہا ہے لیکن اب کراچی کے لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ بیروت میں بھی حالات کبھی اتنے خطرناک نہیں رہے ہوں گے اور وہاں بھی عشروں تک جاری رہنے والی لڑائیوں میں اتنے لوگ نہیں مارے گئے ہوں گے ۔ کراچی دنیا کی واحد کاسمو پولیٹن سٹی ہے ، جہاں ریاست کی عمل داری نہیں ہے تقریباً دو کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے ، جسے محفوظ قراردیا جا سکے ۔
گزشتہ دنوں جامعہ بنوریہ کے استاد اور مفتی محمد نعیم کے داماد مولانا مسعود بیگ کو دہشت گردوں نے شہید کردیا ۔ ان کےعلاوہ علامہ عباس کمیلی کے صاحب زادے علی اکبر کمیلی کو نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کردیا ۔ مختلف مسالک کی نمایاں شخصیات کو بھی کراچی میں مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ فرقہ ورانہ بنیاد پر قتل عام ہورہا ہے ۔ حالانکہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی ادارے مسلسل اس تاثر کی نفی کررہے ہیں اور بار بار لوگوں کو متنبہ کر رہے ہیں کہ یہ فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ نہیں ہے بلکہ ایک ہی گروپ تمام مسالک کے لوگوں کو نشانہ بنارہا ہے تاکہ فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دے کر ملک کی اقتصادی شہ رگ کراچی کو مفلوج کردیا جائے اور عدم استحکام پیدا کیا جائے لیکن پولیس اور سیکیورٹی ادارے اس ٹارگٹ کلنگ کو روکنے میں ناکام رہے ہیں ۔ کراچی میں لسانی، نسلی اور سیاسی بنیادوں پر بھی بے گناہ لوگوں کا قتل عام جاری ہے ۔ لہٰذا مختلف مسالک کے لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فرقہ ورانہ قتل عام ہورہا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد روزانہ کی بنیاد پر اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور سیکیورٹی اداروں اور عوام کو الجھانے کے لئے کبھی ٹارگٹ کلنگ کو فرقہ ورانہ رنگ دے دیتے ہیں اور کبھی لسانی یا سیاسی رنگ دے دیتے ہیں ۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کئی آپریشن ہوئے لیکن کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا ۔ اس وقت بھی آپریشن جاری ہے ، جسے ٹارگٹیڈ آپریشن کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ آپریشن 5 ستمبر 2013ء کو شروع ہوا تھا ۔ اب اسے ایک سال مکمل ہو گیا ہے ۔ مئی 2013ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد قائم ہونے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ تاثر دینا شروع کردیا تھا کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت امن و امان قائم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے ۔ اس طرح کی باتوں سے وفاقی اور سندھ حکومت کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے ۔ اس کے بعد وفاقی حکومت نے قیام امن میں سندھ حکومت کی ’’ معاونت ‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ یہ معاونت صوبائی امور میں مداخلت نہیں ہے ٹارگٹیڈ آپریشن شروع کرنے سے پہلے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کراچی کے کئی دورے کئے اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ساتھ ساتھ تاجروں ، صنعت کاروں ، صحافیوں ، دانش وروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس منعقد کئے اور ان سے مشاورت کی ۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان بھی مسلسل کراچی کے دورے کرتے رہے اور بالآخر کراچی میں ٹارگٹیڈ آپریشن شروع کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دی گئی آپریشن کی کمان وزیراعلیٰ سندھ کو سونپی گئی لیکن آپریشن کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ڈی جی رینجرز سندھ ہیں ۔ واضح رہے کہ رینجرز ایک پیرا ملٹری فورس ہے ، جو وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرتی ہے ۔ اس طرح ٹارگٹیڈ آپریشن کی بنیادی ذمہ داری وفاقی حکومت نے لے لی۔ سندھ پولیس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ رینجرز کو معاونت فراہم کرے ۔ ٹارگٹیڈ آپریشن کو ایک سال گزرنے کے باوجود کراچی میں قیام امن کا خواب پورا نہیں ہو سکا ہے اور اس آپریشن کا انجام بھی وہی نظر آرہا ہے جو اس سے پہلے والے آپریشن کا ہوا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپریشن کی ناکامی کی ذمہ داری کون قبول کرے گا ۔ وفاقی حکومت آسانی سے یہ کہہ سکتی ہے کہ امن وامان صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور وہی اس ناکامی کی بھی ذمہ دار ہے لیکن یہ بات انصاف پر مبنی نہیں ہو گی ۔ وفاقی حکومت کی ٹارگٹیڈ آپریشن میں نہ صرف مکمل مداخلت رہی بلکہ آپریشن کی حکمت عملی بھی وفاقی حکومت وضع کرتی رہی ۔ اب لگتا ہے کہ وہ ذمہ داری قبول نہیں کرے گی جبکہ سندھ حکومت کے پاس ذمہ داری قبول نہ کرنے کا جوازموجود ہے ۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران امن وامان کے اجلاسوں میں اعداد و شمار کے ذریعے یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ٹارگٹیڈ آپریشن کی وجہ سے ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن زمینی حقائق اعداد و شمار کی بنیاد پر کئے گئے دعووں کی نفی کرتے ہیں ۔ آپریشن کے ایک سال کے دوران تین ہزار سے زائد بے گناہ شہری مارے گئے ہیں جبکہ 170 کے قریب پولیس افسران اور اہلکار دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں ۔ اگر ٹارگٹ کلنگ کی شرح میں 5سے 10 فیصد تک کمی کے دعوے کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو بھی اسے آپریشن کی کامیابی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ۔ بہتر یہی ہے کہ ناکامی کو بھی تسلیم کر لیا جائے اور دیانت داری کے ساتھ ذمہ داری کا بھی تعین کرلیا جائے ۔ ایسا کرنا سے آپریشن کی کمزوریوں اور خامیوں کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی ، ان حلقوں کے عزائم کا بھی پتہ چل جائے گا جو آپریشن کو غلط ٹریک پر لے گئے اور مستقبل میں ٹارگٹیڈ آپریشن کا درست لائحہ عمل طے کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو آپریشن کی ناکامی کے خوف ناک نتائج سے نمٹنا نہ صرف مشکل ہو جائے گا بلکہ فورسز اور عوام میں پیدا ہونے والی مایوسی کے بھی ملک کی داخلی سلامتی پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوں گے ۔
تازہ ترین