• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گردش رنگ چمن میں اودھ کی سلطنت اور مسلمانوں کی حالت زار کے حوالے سے قرۃ العین لکھتی ہیں اور گفتگو ڈاکٹر منصور ، نواب صاحب اور عنبرین بیگ کے درمیان ہے۔ ناول کا مزہ لینے کے ضروری تو ہے کہ اسے خودپڑھا جائے لیکن میں کسی وجہ سے اس کے کچھ پیرا گراف درج ذیل کرکے لکھنو کی یاد دلا رہا ہوں۔
’’ہمارے بانکے دنیا کے ا ولین ہپی تھے، چرسیے، مدکئےہمارے بادشاہ اور شہزادے‘‘۔
آپ بھی آخری شاہان مغلیہ اور تاجداران اودھ کے متعلق وہی رویہ رکھتی ہیں۔ عیاش ،نکمے، واہیات، زحمت نہ ہو تو ذری ان کی مجبوریوں پر غور کیجئے نواب صاحب نے فرمایا ۔غلام قاد رروہیلہ…
’’مسلمانوں نے مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھائے ہیں۔ مسز بیگ بخشنے والی نہیں۔ روہیلوںسے جان بچا کر شہزادہ سلیمان شکوہ مملکت اودھ میں پناہ لیتے ہیں۔ شاہ عالم کے فرزند، اکبر شاہ ثانی کے برادرخورد، نواب آصف الدولہ چھ ہزار ان کا وظیفہ مقرر کرتے ہیں۔ لکھنو میں وہ اپنا دربار آراستہ...... مچارکھی ہے، سلاطینوں نے وہ توبہ دھاڑ کوئی تو گھر سے نکل آئے گریبان پھاڑ..... عندلیب بیگ نے سودا کی گواہی دی اور سلیمان شکوہ کے متعلق نواب صاحب کو یاد دلایا ’’لکھنو میں اپنی عیاشیوں کی بدولت رستوگیوں کے مقروض۔ بیگم صاحبہ ایک دیمک لگے شاہ بلوط کوٹھونگیں مارتی کھٹ کھٹ بڑھیالگیں۔ منصور نے گمنام بزرگ کو معذرت طلب نگاہوں سے دیکھا۔
سلیمان شکوہ سے پہلے ان کے بڑے بھائی تشریف لائے تھے، دلی سے۔ مرزا جہاندار۔ نواب وزیر نے ان کو بڑی تکریم سے مارٹن کوٹھی میں ٹھہرایا۔ انہوں نے لہو و لعب ، فسق و فجور۔ چھوٹتے ہی وزیر ہند میزبان کی منظور نظر رقاصہ بھگیہ پر عاشق، گورنر جنرل وارن ہسٹینگز سے درخواست کی ہمیں بھگیہ دلوادیجئے اس فرمائش پر ہسٹینگز بھی جھینپ گیا۔
پھر سلیمان شکوہ کے بھتیجے دلی سے وارد ہوئے۔ مرزا جہانگیر، وہ شراب میں دھت لکھنو کی گلیوں میں گھوڑا دوڑاتے ہلڑ مچاتے چوک کے کوٹھے سےدمڑی بھگا کر لے گئے۔ یہ تو آپ کی حالت تھی ،انگریز آپ سے آپ کا ملک کیوں نہ چھینتا‘‘۔
’’جن دنوں طوائف الملوکی چالو تھی طوائفوں سے ملوک کا بہت رابطہ رہا‘‘
اسی لکھنو میں جہاں نوابین کی یہ صورتحال تھی کہ زوال زدہ معاشرے کے کردار اور پھر اپنی سابقہ عظمت کے گن گاتے نوابین وہاں انگریز ہندوستان میں ا یسے گروہ باز مسلمان طبقوں میں گرہ ڈالتا اور ان کی آپس کی گروہ بندی کو اور بھڑکتا۔
’’ایسا ہی رہا ہوگا بھیا، ہمارے ابا بتلاتے تھے کہ حضور پہلے شیعہ اور سنی جماعت دونوں کے تعزیے ایک ساتھ ٹال کٹورہ پھول کٹورہ کی کربلائوں میں جاتے تھے۔ بڑی بہیا سے دس بارہ سال پہلے کی بات ہے کہ یہ الگ ہوگئے۔
’’سراینئنی مکڈونل کی دو کرامات، پہلی اردو ہندی، دوسری شیعہ سنی لیکن کیا اس سے پہلے خواہ اس تفرقہ بازی کو انگریزوں نے اپنی حرکتوں سے نہیں بڑھایا تھا۔ اودھ میں ڈیڑھ سو سال سے ان کی حرکتیں ایسی ہی تھیں۔ یہ سلطنت ہی انہوں نے کھڑی کی تھی ،مغل دہلی کے مقابلے پر اودھ پر دراصل حکومت ریذیڈنسی سے کی جاری تھی‘‘
یہ معاملہ تو صدیوں سے چلا آرہا ہے، ایرانی پارٹی، تو رانی پارٹی،ہم سب ایسے ہی تاراج ہوئے۔
اب بھی ہماری بربادی کے سامان ایسے ہی ہیں۔ ن لیگ، ق لیگ، طاہر القادری، عمران خان، انقلاب ، آزادی مارچ، سکرپٹ لیکن اب انگریز کے ہاتھ میں نہیں۔ نادیدہ قوتوں نے اپنے سر لے لیا ہے۔ سیاستدان وہی اودھ کےنوابین ایسے ہیں روپیہ پیسہ نوابوں کی طرح میٹرو بس وغیرہ پروجیکٹ پر لگ رہا ہے۔ انداز شاہی ہیں، جاگیریں وسیع، محلات اور وسیع اور انقلاب کے داعی باہر سے آئے شہزادے یا بیرونی قوتوں کے اشارے پر ناچتے لیڈران۔ ایسے میں انسان کس کو زوال کی اور نشانیاں بتائے۔ وہ جو غیر مرئی قوتیں ہیں انہیں شاید زیادہ قوت گروہ بازی میں ہی نظر آتی ہے۔ وہ بھی ملک کا نہیں سوچتے، صرف مقصدقوت کا حصول ہے۔ دھرنے کس کے اشارے پر ، حکومت اسلام آباد میں مگر طاقت کے مرکز کہیںدور، یہ کشمکش جاری ہے۔
ہم ایسے میں جو بھی پڑھیں عبرت کے نشان ہر صورت نظر آتے ہیں،اگر گردش رنگ چمن کچھ سبق سکھا سکے تو اسے پڑھ کر آج کی نادیدہ قوتوں کے بارے میں اور حکمرانوں کی عیاشیوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے اور انہیں بھی جو نادیدہ ہیں کہ تاریخ جہاں نوابین کا رونا روتی ہے وہاں نادیدہ قوتیں بھی باطل ہی ثابت ہوتی ہیں۔
تازہ ترین