• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیسے جیسے پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کی شرکاء کی تعداد کم ہوئی عمران خان نے کہنا شروع کردیا کہ اب ان کے نظریاتی ساتھیوں اور موسمی پرندوں کے درمیان فرق واضح ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کا نظریہ کیا ہے اور اس کی بنیاد پرانہوں نے کیا حکمت عملی اپنائی ہے۔ بظاہرعمران خان کا کوئی مربوط نظریہ حیات نہیں ہے ، ان کے ہر طرح کے نعرے ہیں جن سے ہم ان کے ایجنڈے کا سراغ لگانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ایک بات واضح نظرآرہی ہے کہ ان کے تھکے ہوئے دھرنے کا انجام کچھ بھی ہو وہ اپنی موجودہ سیاسی حیثیت برقراررکھیں گے۔ ان کے ناقدین اور مخالفین کا یہ خیال کہ ان دھرنوں کی ناکامی کے بعد ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا شاید درست نہیں ہے۔ اس کے الٹ ان کے حامی اور پیروکار حسب سابق ان کی حمایت کرتے رہیں گےکیونکہ پاکستان کی موجودہ سیاسی پارٹیوں میں کوئی بھی ان کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔
عمران خان کی تحریک انصاف روایتی انداز میں کوئی نظریاتی پارٹی نہیں ہے۔ نظریاتی پارٹی سے مراد ایک ایسی تنظیم ہوتی ہے جو ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرے۔ مثلاً سوشلزم ایک نظریہ حیات ہے جس میں ذاتی ملکیت کا کوئی تصور نہیں ہے، اس نظرئیے کے مطابق حکمرانی پرولتاری (مزدور) طبقے کا حق ہے۔ غرضیکہ سوشلزم مساوات کا ایک ایسا نظام ہے جس کے تحت مخصوص سیاسی، معاشی اور سماجی ادارے معرض وجود میں آتے ہیں ۔ اس نظریہ حیات کی بنیاد یہ تھی کہ اگر ذاتی ملکیت کا نظام ختم کردیا جائے تو لالچ، چھینا جھپٹی اور اونچ نیچ خود ہی ختم ہو کر نظام پاکیزہ ہوجائے گا۔ اسی طرح جدید سرمایہ داری کا بھی ایک ضابطہ حیات ہے جس میں ذاتی ملکیت ہر ادارے کی بنیاد تصور کی جاتی ہے۔ سرمایہ داری نظام میں سیاسی اور سماجی ادارے فرد کی آزادانہ رائے پر استوار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ستر کی دہائی کو نظریاتی کشمکش کا دور تصور کیا جاتا ہے جس میں ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کا اسلامی سوشلزم کا نعرہ تھا تو دوسری طرف جماعت اسلامی کی رہنمائی میں اسلامی ریاست کے قیام کا تصور۔ اسلامی سوشلزم کا موہوم سا تصور تھا لیکن اس کے کچھ پہلو واضح تھے ۔ جیسے حبیب جالب نے ایک مشہور نظم میں کہا تھا ’’کھیت وڈیروں سے لے لو، ملیں لٹیروں سے لے لو۔۔کوئی رہے نہ عالیجاہ‘‘ یعنی جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کردیا جائے۔ تمام وسائل (زمین، کارخانے وغیرہ) ریاست کی ملکیت تصور کئے جائیں اور ہر شہری کو اس کی استطاعت کے مطابق روزگار مہیا کیا جائے۔ اس کے الٹ اسلامی نظام کے قائم کرنے والے فرد کی تطہیر کو نقطہ آغاز تصور کرتے تھے اور ہیں۔ یعنی اگر فرد اسلامی نظام کے تابع ہو جائے تو ادارے خود بخود تبدیل ہو جائیں گے۔ آج بھی یہ نظریہ دنیا کے قدامت پرست حلقوں میں مقبول ہے۔ستر کی دہائی میں نظریات کے ٹکراؤ کی ایک خاص نوعیت تھی جس کے مخصوص نتائج سامنے آئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دورسے پہلے یا بعد میں نظریاتی سوچ نہیں رہی۔ اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ہر دور میں ہر گروہ اور فرد کا ایک نظریہ حیات ہوتا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ نظریہ رکھنے والے کو اس کا خود شعور نہ ہو یا اس کو باقاعدہ کسی تحریری شکل میں نہ لایا گیا ہو، لیکن ہر انسانی تصور کسی نظریہ کی عکاسی کررہا ہوتا ہے۔ مثلا ایوب خان کا دور نیم سرمایہ دارانہ نیم جاگیردارانہ نظام پر مشتمل تھا۔ اس میں مذہب کو بنیادی اہمیت نہیں دی گئی تھی اور معاشی ترقی کو اساس بنایا گیا تھا۔ اس کے اپنے منفی اور مثبت نتائج مرتب ہوئے جس کے ردعمل میں پیپلز پارٹی کی عوامی تحریک نے جنم لیا۔
بسا اوقات رہنما اور اس کے پیروکاروں کے نظریات میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ مثلاً ہو سکتا ہے قائد اعظم محمد علی جناح کے ذہن میں ویسی اسلامی ریاست کا معرض وجود میں لانا شامل نہ ہو جیسے اب ان کے بہت سے پیروکار سمجھتے ہیں۔ یا ذوالفقار علی بھٹو کے بہت سے ماننے والے سمجھتے تھے کہ پیپلزپارٹی سوشلزم کی داعی ہے حالانکہ بھٹو نے متعدد بار بیانات دئیے کہ نہ تو وہ سوشلسٹ ہیں اور نہ ہی اس نظام کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کے حامی اور اس کے مخالفوں کی نظرمیں بھٹو سوشلسٹ تھے۔ اکثر اوقات رہنما کی بجائے اس کے پیروکاروں کے طبقاتی پس منظر اور ان کی امنگوں اور تمناؤں کا تجزیہ کیا جائے توحقیقت زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ مثلاً پیپلز پارٹی مزدوروں کسانوں اور درمیانے طبقے کی امنگوں کی آئینہ دار تھی ۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان شہری درمیانے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بظاہر ان کا نظریہ یہ ہے کہ اگر نظام دیانت دار لوگوں کی سربراہی میں دے دیا جائے تو معاشرے سے تمام معاشی، سیاسی اور سماجی برائیاں ختم ہو جائیں گی۔ وہ اس پہلو سے اپنے پیش رو اسلامی نظریات کے حامی نظر آتے ہیں کہ فرد کی تطہیر سے پورا نظام تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسی لئے ان کے حامی کھود کھود کر ان سے علامہ اقبال کے اشعار جلسوں میں پڑھواتے ہیں۔ گویا کہ وہ عمران خان کو مرد مومن کا اوتار بنا کر پیش کررہے ہیں۔
اگرعمران خان کے پیرکاروں کو بغور دیکھا جائے تو وہ مذہبی انتہا پسندی کے بھی مخالف ہیں اور ثقافتی سطح پر کافی آزاد خیال ہیں۔ ان کی تحریک میں نوجوانوں اور خواتین کی اکثریت ایک کشادہ اور منصفانہ نظام کی خواہاں ہے۔ ان کے دھرنوں میں موسیقی اور رقص پاکستان میں رجعت پرست سوچ کی نفی کرتے ہیں۔ گویا کہ تحریک انصاف کے پیروکار اقبال کے مرد مومن کی تلاش میں بھی ہیں اور ڈی جے بٹ کی دی گئی عوامی دھنوں پر بھی رقص کرتے ہیں۔ سیاسی معیشت کے تناظر میں یہ وہ نیا درمیانہ طبقہ ہے جس کی ریاست میں نمائندگی نہیں ہوپارہی اور اسے چالو نظام سے کوئی امید بھی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کا خاندانی اور وراثتی سیاست کے خلاف نعرہ کافی مقبول ہے۔ اسی طرح موجودہ حکمران طبقے کی بدعنوانیاں اور ناجائزدولت کا ارتکاز بھی تحریک انصاف کے درمیانے طبقے کے نزدیک ناقابل معافی گناہ ہیں۔تحریک انصاف کی حکمت عملی میں احتجاجی سیاست کا بنیادی کرداررہا ہے۔ پہلے کافی عرصے تک عمران خان کی توجہ ڈرون حملوں کے خلاف مرکوزرہی، اس کے بعد، نیٹو سپلائی بند کرنے کی تحریک چلائی گئی اور اب انتخابی دھاندلی کے خلاف دھرنے دئیے جارہے ہیں۔ عمران خان کی امریکہ اور مغرب مخالف نعرہ زنی نے بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا لیکن ان کا اصل امیج ایک ایسے مسیحا کا ہے جو پورے نظام کو تبدیل کرسکتا ہے۔
عمران خان کے سیاسی فہم کو باربار دھچکا لگا ہے۔ ان کا ڈرون حملوں کے بارے میں تجزیہ بھی غلط ثابت ہوااور شمالی وزیر ستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں بڑھنے والی دہشت گردی کا ممکنہ خطرہ بھی بے بنیاد نکلا۔ عمران خان کے کردار کے بارے میں منفی حقائق بھی ان کی مقبولیت کو کم نہیں کرسکے۔ اس پس منظر میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا اسلام آباد کے دھرنے کی ناکامی اور ان کا تھرڈ ایمپائر پر مبینہ انحصار بھی ان کے پیروکاروں کے جوش و جذبے کو کم نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب ہے کہ آبادی کا یہ حصہ تب تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک نظام میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کی جاتیں۔ مزید برآں ان طبقات کی بے چینی پاکستان میں اگلے کئی سال تک سیاسی نظام کو مستحکم نہیں ہونے دے گی۔
تازہ ترین