بیس اکیس برس پہلے کی بات ہے۔ میں ماہناموں کی سلوموشن دنیا سے نکل کر نیا نیا روزناموں اور کالموں کی دنیا میں آیا تھا۔ کالم کو پذیرائی ایسی ملی کہ آفس میں خطوط کے انبار ہوتے کہ یہ زمانہ ہی خطوط کا تھا۔ میں ایک ایک خط پڑھتا، کچھ کے جواب بھی دیتا کہ انہی دنوں ملتان سے موصول ہونے والے ایک خط نے مجھے بیحد جذباتی کر دیا۔ یہ نشتر میڈیکل کالج کے کسی ایسے سٹوڈنٹ کا خط تھا جو ہاسٹل میں قیام پذیر تھا اور واجبات ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے ہاسٹل انتظامیہ اسے نکالنے پر تلی ہوئی تھی۔ میں نے اس کے نام پتے سمیت ’’اپیل‘‘ داغ دی۔ پیسوں کی دو طرفہ برسات شروع ہو گئی۔ بہت سے لوگ ہاسٹل کے پتہ پر براہ راست اسے اور کچھ میرے ذریعہ رقومات بھیجنے لگے۔ میں اس کارخیر پر بہت خوش یہ سوچ رہا تھا کہ ’’بچہ‘‘ جتنی دیر زیر تعلیم رہے گا، مالی مشکلات سے بے نیاز ہو کر پڑھ سکے گا کہ اچھی خاصی رقم اکٹھی ہو گئی تھی۔ خود وہ طالب علم بھی فون پر مجھے تفصیلات سے آگاہ کر چکا تھا۔ کالم کی اشاعت کے ساتھ آٹھ دن بعد کالج انتظامیہ کی طرف سے ایک خط ملا کہ وہ ایک پیشہ ور طالب علم ہے جو ایک کلاس سے اگلی میں جانے اور ہاسٹل چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور یوں جینوئین طالب علموں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
سی پی او فیصل آباد کے حوالہ سے سادہ لوح عمران خان کے ساتھ بھی پچھلے دنوں کچھ ایسا ہی ہو گیا۔ کسی نے عمران خان کے پاس جا کر اپنی ’’مظلومیت‘‘ کی داستان سنائی۔ سی پی او سہیل تاجک کو ولن قرار دیتے ہوئے اپنے مرحوم بیٹے کو پی ٹی آئی کا ورکر بتایا حالانکہ نوبہار والد نادر قوم بلوچ ایک جانا پہچانا منشیات فروش تھا جو اپنے جرائم کے لئے نہ صرف 1990سے مشہور تھا بلکہ سی پی او سہیل تاجک کی فیصل آباد پوسٹنگ سے پہلے ہی اس کے خلاف 8 عدد ایف آئی آرز تھانہ ڈجکوٹ میں درج ہو چکی تھیں اور یہ کہ عادی مجرم نو بہار ٹارچر نہیں، نشئی ہونے کے سبب طبعی موت مرا۔ کمال یہ کہ جوڈیشل انکوائری میں اس کی فیملی کی طرف سے بھی ایسا کوئی کلیم دکھائی نہیں دیتا تو دوسری طرف نوبہار کا PTIسمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
خود سہیل تاجک۔۔۔ ڈاکٹر سہیل تاجک ہے جو نرسری سے میٹرک، ایف ایس سی سے میڈیکل کالج اور پھر CSSکے امتحان سے پولیس اکیڈیمی تک ہمیشہ ٹاپ پر رہا۔۔۔ فل برائیٹ سکالر، 15ملکوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ۔۔ تمغہ امتیاز۔۔۔ 6ماہ میں FIAکے 180ملین روپے ریکور کرنے والا ایک ایسا پولیس افسر جس کی تحریریں بالخصوص "Lea,& Counter Terrorism" پڑھ کر انسان چونک جاتا ہے۔ ڈاکٹر سہیل تاجک 10ہزار ڈالر ماہانہ کی تنخواہ چھوڑ کر ملک کی خدمت کرنے آیا اور یہی وہ پولیس افسر ہے جس نے پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ سہیل تاجک کے ایک مضمون کا عنوان ہے "Insight in to a suicide bomber training camp in Waziristan"
اپنے موضوع پر کسی شہکار سے کم نہیں۔
میں اس پھڈے میں اس لئے کودا ہوں کہ ڈاکٹر سہیل تاجک نے مجھے طعنہ دیا کہ آپ پی ٹی آئی کے فرنٹ لائن سپورٹر ہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ حقائق منظر عام پر لائیں۔ میں ہر بات کا دستاویزی ثبوت آپ کو مہیا کر رہا ہوں۔ آپ کا فرض ہے کہ عوام اور عمران خان صاحب کے سامنے میرا کیس رکھیں تاکہ مجھ پر لگے ہر الزام کا ازالہ ہو سکے۔
میں نے اپنا فرض پورا کر دیا کہ اب سوائے ایسی سازشوں کے اور کوئی شے پی ٹی آئی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ عمران خان کے معتمد ترین ساتھیوں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ کڑی نظر رکھیں تاکہ کوئی شخص عمران کو جذباتی طور پر ایکسپلائٹ یا بلیک میل نہ کر سکے۔ ایسا کوئی ’’کیس‘‘ عمران تک پہنچنے سے پہلے اس کی کڑی چھان بین اور تصدیق بیحد ضروری ہے کہ دراصل سہیل تاجک جیسے لوگ ہی تو ہیں جو پی ٹی آئی کی عوام دوست سوچ کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
ملتان میں شیخ رشید کے ساتھ ہونے والی غنڈہ گردی کے بعد لوگوں کو اکسانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ لاہور اور پنڈی کے ن لیگی بھی ’’غیرت‘‘ کا مظاہرہ کریں تو عرض ہے کہ غیرت اور غنڈہ گردی میں بہت ہی باریک لکیر ہوتی ہے جسے دیکھنے کے لئے تیسری آنکھ بھی روشن ہونی چاہئے۔ ن لیگی اپروچ یہی ہے تو پھر یہ تابوت کی آخری کیل اور اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو گا کہ ن لیگ کی بند مٹھی سے مقبولیت کی ریت پھسل چکی۔
ملتان کا جلسہ ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی ہیں۔ دعا ہے اور امید بھی کہ یہ جلسہ بھی پی ٹی آئی کی روایت کے مطابق شاندار، جاندار اور تاریخی ہو گا۔ اگر ایسا ہو گیا یعنی کراچی اور لاہور میانوالی کے بعد ملتان نے بھی ن لیگ کے خلاف ’’پائیل اپ‘‘ ہو چکی نفرت کا اعلان کر دیا تو سمجھو میدان مارا گیا اور پھر سیاسی قبرستان میں بھی تبدیل ہو گیا۔ ایسا احتساب ہو گا جو عمران کے علاوہ کسی کے بس میں ہی نہیں۔
ملتان کا اعلان سامنے آتے ہی آصف زرداری صاحب اور شریف برادران میں مزید قربتوں کا دلچسپ امکان ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو سہارا دیتے دیتے مزید کباڑہ کر لیں گے اور عوام پر یہ سچ مزید واضح ہو جائے گا کہ۔۔۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔
اپنے اپنے بیوفائوں نے ہمیں یک جا کیا
ورنہ میں تیرا نہ تھا اور تو کبھی میرا نہ تھا
اس بار عوام ’’بیوفائی‘‘ کریں گے۔۔۔ انشاء اللہ