• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرف دور میں ’’حراستی قید‘‘۔ تجربات و مشاہدات

آج جنرل (ر) پرویز مشرف کے آغاز مارشل لا کی پندرہویں سالگرہ پر مجھے اس مارشل لا کی ’’حراستی قید‘‘ میں گزارے ہوئے وہ ایام یاد آرہے ہیں جو میں نے بلاجواز،کسی الزام، کسی چارج شیٹ کے بغیر 12؍اکتوبر 1999ء سے اسلام آباد میں نواز دور حکومت کے وزیر اطلاعات مشاہد حسین اور وزیر قانون خالد انور کی سرکاری رہائش گاہوں کے درمیان واقع وزیر مملکت اور میرے محترم دوست کیپٹن (ر) حلیم صدیقی کی سرکاری مگر کمپیوٹر جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رہائش گاہ پر فوج کی ’’حراستی قید‘‘ میں گزارے مگر اسی حراست کے دوران اپنی لکھی ہوئی خبریں ’’جنگ‘‘ کے نیوز روم تک اوراپنی ’’حراست‘‘ کی ’’آپ بیتی‘‘دو قسطوں میں لکھ کر ’’دی نیوز‘‘ تک کیسے پہنچائیں! اس کی تفصیل پھر کبھی سہی البتہ اس کے لئے حلیم صدیقی کے ایک گھریلو ملازم شاہد اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد کے قریب واقع مارکیٹ کی بالائی منزل پر واقع ایک انٹرنیٹ کیفے کے مالک عباسی صاحب کے تعاون کا احسان مند ہوں۔ یہ حضرات جہاں بھی ہیں میں آزادی صحافت کے لئے ان گمنام افراد کی خاموش خدمت کا معترف ہوں۔ اس کالم کا مقصد قارئین کرام پر یہ واضح کرنا ہے کہ آزادی صحافت کیلئے جدوجہد میں مصروف صحافتی تنظیموں کو عالمی برادری کی آزادی صحافت کے لئے سرگرم تنظیموں کے تعاون اور ان سے رابطوں کی ضرورت کتنی ضروری ہے اور کیوں! دوسری حقیقت یہ کہ ہمارے سابق اور موجودہ حکمران انصاف، قانون کی بالادستی اور مساوات پر تقاریر تو ضرور کرتے ہیں مگر اس کا کبھی کوئی عملی مظاہرہ نہیں کرتے اور نہ ہی یہ ان کے ضمیر کے لئے کوئی بوجھ یا واجب الادا قرض ہوتا ہے۔ پرویز مشرف کے مارشل میں بلاجواز، بغیر الزام اور بغیر کسی چارج شیٹ کے ’’حراستی قید‘‘ میں ایام گزارنے کے بعد ان کے دور حکمرانی میں متعدد بار ان سے امریکہ اور اقوام متحدہ میں بالمشافہ ملاقاتوں، تبادلہ خیال، کافی کے کپ پر گپ شپ سے لے کر خصوصی انٹرویو وغیرہ کے متعدد مواقع ملے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد دو مرتبہ ملاقات بھی رہی اوروہ اپنے مارشل لا کے دور میں میری اس ناجائز حراست سے بھی خوب واقف تھے مگر ایک مرتبہ بھی انہوں نے اپنے دور کی اس زیادتی و ناانصافی پر کسی افسوس یا معذرت کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی آج تک میں نے ان سے اس کا کوئی ذکر کیا۔ خود نئے نئے مارشل لا کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہماری آزادی صحافت کی تنظیموں میں سے بھی کسی تنظیم نے اس واقعہ کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ البتہ خوش قسمتی یہ تھی کہ میں اس وقت اقوام متحدہ میں امریکہ، یورپ،لاطینی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے ذرائع ابلاغ کے اقوام متحدہ میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافیوں کی عالمی تنظیم ’’یو این کارسپانڈنٹس ایسوسی ایشن‘‘ کا دوسری مرتبہ جنرل سیکرٹری منتخب ہوچکا تھا اور 21؍اکتوبر کو ہونے والے تنظیم کے سالانہ ڈنر کے سلسلے میں ذمہ داریاں ادا کررہا تھا تاکہ ڈنر سے چند روز قبل واپس پہنچ کر بقیہ انتظامات میں حصہ لے سکوں۔ صحافتی تنظیم کا یہ سالانہ ڈنر اقوام متحدہ کی عمارت میں ایک بڑی خوبصورت تقریب ہوتی ہے سیکرٹری جنرل کوفی عنان مہمان خصوصی، اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے سفیر اور سفارتکار ٹکٹ لے کر اور ممتاز امریکی و عالمی شخصیات اس میں شرکت کی روایت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اپنے آبائی وطن میں مارشل لا کی حراست میں آتے ہی اپنی تنظیم کے عہدیداروں کو یہ مطلع کرنا بھی میرے لئے اہم ترین چیلنج تھا کہ وہ اپنے سالانہ ڈنر کی تیاریاں میرے بغیر ہی جاری رکھیں لہٰذا حراست کے دوران ہی فوراً ایک ای میل کا متن اپنا پاس کوڈ اور نام شاہد کے ہاتھ عباسی صاحب کو بھیجا اور انہوں نے یہ ای میل متعلقہ ایڈریسوں پر بھیجنے کی ذمہ داری ادا کی۔
میری یہ ای میل اقوام متحدہ میں میری صحافتی برادری کو پہنچی تو نیویارک ٹائمز کی بیورو چیف باربرا کروسٹ اور دیگر صحافی متحرک ہوگئے۔ این بی سی کی لنڈا فسولو نے میری ای میل اپنے ادارے کو فارورڈ کردی ہماری تنظیم کے رکن صحافیوں نے نوٹس لیا اور پھر جو کایا پلٹی تو وہ مختصر طور پر کچھ یوں تھی کہ این بی سی ٹیلی ویژن کی شام کی خبروں میں ٹام بروکا نے میری آواز میں پاکستان کی صورت حال پر میرا انٹرویو نشر کیا جس سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانہ مطلع ہوا کہ میں کہاں اور کس حال میں ہوں! میرے ایک انتہائی خاکسار دوست ریاست مشی گن کے ڈاکٹر وحید اکبر اور نیوجرسی کے چوہدری اکرم نے یہ انٹرویو دیکھ کر اپنے ذاتی اثرات و تعلقات کا بھرپور استعمال کیا تو اگلی صبح حلیم صدیقی کی رہائش گاہ پر فوجی حوالدار کی تحویل میں چھوٹے سے ایکسچینج باکس پر مجھے گن مینوں کی تحویل میں بالائی منزل سے بلوا کر محترم ڈاکٹر وحید اکبر سے گفتگو بھی کروائی گئی اور اس کے تھوڑی دیر بعد ٹورنٹو کینیڈا سے میرے بیٹے ندیم کا فون بھی وحید اکبر اور اکرم چوہدری کی مہربانی سے آگیا اور بات ہوگئی۔ گویا پاکستانی حکام کو علم تھا کہ میں بلاجواز کہاں حراست میں ہوں اور کس فون نمبر پر مجھ سے گفتگو کرائی جاسکتی ہے ورنہ وحید اکبر اور میرے بیٹے کو کیا معلوم کہ میں کہاں تھا۔ تقریباً ایک ہفتے کی اس ’’حراستی قید‘‘ کے دوران ’’جنگ‘‘ اور ’’دی نیوز‘‘ تک اندر سے خبریں بھجوانے،، مارشل لا کی پابندیوں کی تعمیل کرنے، دوران حراست مشاہد حسین سے بالکونی اور کھڑکیوں سے اشارے اور ایک بار گفتگو کرنے، تہمینہ دولتانہ کی کھانے کے بعد بےباکانہ بلکہ باغیانہ انداز میں چہل قدمی کرنے، نوازشریف کابینہ کے بعض وزراء کی ملازموں کے سامنے گھبراہٹوں اور بدلتی وفاداریوں کی اطلاعات جمع کرنے کا ایک بالکل منفرد اور یادگار تجربہ رہا۔ اور جس روز رہائی یعنی باہر نکلنے کی اجازت مل گئی تو پھر تہمیبنہ دولتانہ کی رہائش گاہ پر خواجہ آصف، صحافی محمد مالک (موجودہ پی ٹی وی) زاہد واہلہ مرحوم اور چند دیگر رہا شدہ رہنمائوں سے حلیم صدیقی کے ساتھ ملاقات، اور تبادلہ خیال کا موقع ملا اور پھرمیں خاموشی سے کراچی ہوتا ہوا نیویارک واپس آگیا۔ لیکن پرویز مشرف یا ان کے کسی شریک اقتدار سے کبھی کوئی معذرت آج تک نہیں سنی ہاں البتہ اقوام متحدہ میں میری صحافتی برادری کی کوششوں سے میرے دوستوں وحید اکرم چوہدری کو آگاہی اور پھر ان کے ذاتی اثر و رسوخ نے حاکمان وقت کو ضرور مجبور کر ڈالا۔ ورنہ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی صحافتی تنظیموں کا کوئی بھی گروپ ہو وہ بیرون ملک مقیم پاکستانی یا غیرملکی ذرائع ابلاغ سے منسلک پاکستانی صحافیوں سے تو قطعاً لاتعلق ہیں حالانکہ وہ پاکستان میں آزادی صحافت کی جدوجہد میں بڑے مفید اور موثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ بہرحال قارئین، ہم پندرہ سال قبل اکتوبر کے اسی ماہ میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کی ’’حراستی قید‘‘ میں چند دن گزار کر خاموشی سے امریکہ واپس آگئے۔ نہ مارشل لا والوں نے معذرت کی نہ کسی صحافتی تنظیم نے نوٹس لیا مگر خیر ہو اقوام متحدہ کے ساتھی صحافیوں کی ان کا آج بھی احسان مند ہوں کہ انہوں نے 11؍ستمبر کے سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد نومبر میں ہونے والے انتخابات میں میرے حریف امریکی صحافی جم ورسٹ کے مقابلے میں چھ ووٹ زیادہ دے کر مجھے اپنی عالمی تنظیم کا صدر برائے 2002ء بھی منتخب کیا جوکہ خود ایک تاریخ ہے۔ ہاں! اس واقعہ نے کیپٹن (ر) حلیم صدیقی اور ان کے خاندان کو دوست سے بڑھ کر میرے بھائی اور میرے خاندان کا عملی درجہ دے ڈالا۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ اور ایگزیکٹو کے رکن مشتاق منہاس گزشتہ ہفتہ نیویارک میں تھے اور پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے خاصے سرگرم تھے۔ امریکی تنظیم ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘‘ کے حکام اور دیگر عالمی صحافتی تنظیموں سے رابطے کرکے آزادی صحافت کی تحریک کو فائدہ پہنچائیں۔
تازہ ترین