• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کی وابستگی خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہولیکن یہ بات تسلیم کر لینا چاہئے کہ اس وقت سونامی کی لہر چل رہی ہے اور جو بھی سوکئےنامی کی راہ میں آئے گا،خس و خاشاک کی مانند بہہ جائے گا۔جو لوگ ستر کی دہائی میں بھٹو کی کرشماتی شخصیت سے متاثر ہوئے یا جنہوں نے اس دور کو قریب سے دیکھا ،وہ میری اس بات کی تائید کرینگے کہ اس لہر کے ہنگام میںکسی دلیل ،کسی منطق ،کسی آئینی جواز،کسی اخلاقی بنیاد،کسی سیاسی اصول کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ہاں جب لہر اترتی ہے اور ملبہ دکھائی دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سونامی نے کس قدر تباہی مچائی اور کیا کچھ بہا کر لے گیا۔اس لہر کی شدت کم کرنا ہے تو ہمارے حکمرانوں کو اپنی عقل کے دریائوں پر حماقتوں کے شگاف پر کرنا ہونگے۔یہ غم وغصے کی وہ لہر ہے جو برسہا برس سے ایستادہ فلک بوس عمارتوں کی بنیادیں ہلا دیتی ہے،اس کا رُخ نہ موڑا گیا تو سب کچھ فنا ہو جائے گا۔سر تسلیم خم کہ وسائل کی کمی ہے،لوڈ شیڈنگ گھٹانے کیلئےاور نئے پاور پلانٹ لگانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے ۔روزگار دینے سے قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے مگر تضحیک و تذلیل کا شکار جمہورکو وقعت دینے پر تو پیسے خرچ نہیں ہوتے،خوشیاں نہیں دے سکتے تو کیا ہوا،درد و ستم ہی بانٹ لیں ۔اجالے فراہم نہیں کر سکتے تو اندھیرے ہی تقسیم کر لیں ۔ملتان کے ضمنی الیکشن میں وہ ’’باغی‘‘ ہار گیا جو تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد ’’داغی‘‘ قرار پایا تھا۔یہ وہی ’’داغی‘‘ ہے جس نے اس وقت بھٹو کو للکارا جب اس کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا اور لوگ اس کے خوف سے تھر تھر کانپتے تھے۔بھٹو نے اسے بلایا اور تعلیم مکمل ہونے سے پہلے ہی بیرون ملک سفیر لگانے کی پیشکش کی،شرط صرف ایک تھی کہ بغاوت ترک کر دو لیکن اس جنم جنم کے باغی نے انکار کر دیا۔جب ضیا ء الحق برسر اقتدار آیا تو اس باغی نے پہلا الیکشن لڑا ۔اس کے تن پر ایک ہی داغ ہے کہ اس نے ایک ڈکٹیٹر کے دور میں وزارت قبول کی لیکن ڈکٹیٹروں کی جھولی میں پرورش پانے والے اسے یہ طعنہ دیتے وقت بھول جاتے ہیں کہ جب غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی میں ضیاء الحق خطاب کرنے آیا تو اسی باغی نے کھڑے ہو کر فلور آف دا ہائوس پر کہا کہ تم ایک ڈکٹیٹر ہو ،تمہیں اس ایوان سے مخاطب ہونے کا کوئی حق نہیں۔کیا یہ جرات رندانہ کوئی اور دکھا سکتا ہے؟جب پرویز مشرف کے دور آمریت میں شیخ رشید جیسے مصائب و آلام کی تاب نہ لا سکے،جب عمران خان اور طاہر القادری ریفرنڈم میں اس مطلق العنان حکمران کیساتھ کھڑے تھے،جب قاضی حسین احمد جیسے فرشتہ صفت لوگ اس چالاک اور مکار ڈکٹیٹر کے جھانسے میں آ گئے،جب چوہدری نثار جیسے مسلم لیگی مصلحت پسندی کا شکار ہو گئے تو اس ملتانی مخدوم نے وقت کے سقراط کا کردار ادا کیا اور پرویز مشرف کی آمریت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔اس پر غداری کا مقدمہ چلا،قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں،تشدد کے نت نئے حربے آزمائے گئے ،اگر وہ چاہتا تو اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح ڈکٹیٹر سے ڈیل کر لیتا،آمریت کی دہلیز پر سجدہ ریز ہو جاتا اور حکومتی منصب اسکے قدموں میں ڈھیر کر دیئے جاتے لیکن اس نے عزیمت کی راہ اختیار کی۔ابتلاء و آزمائش کا دور ختم ہوگیا ،پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کو تھا،پیپلز پارٹی سے مفاہمت کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) نے وزارتیں قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا،چوہدری نثار ،احسن اقبال سمیت اس کے کئی ساتھیوں نے سیاہ پٹیاں باندھ کر پرویز مشرف سے وزارتوں کا حلف لے لیا لیکن اس باغی نے وزارت کی پیشکش ٹھکرا دی کہ اسے ڈکٹیٹر سے حلف لینا گوارہ نہ تھا۔پھر اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی بغاوت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اس نے مسلم لیگ (ن) کی کشتی سے تب چھلانگ لگانے کا فیصلہ کر لیا جب وہ ڈوبنے والی نہیں تھی بلکہ کنارے لگنے والی تھی۔تحریک انصاف نے اسے ایک بہادر آدمی کا خطاب دیکر اپنا مرکزی صدر منتخب کیا۔اس نے ایک بار پھر جمہوریت کو بچانے کے لیئے بغاوت کرنے کا فیصلہ کر لیا،اس بار بھی اس نے تحریک انصاف سے اپنے راستے تب الگ کئے جب یہ جماعت اپنے نکتہ ء عروج پرتھی۔لیکن اس بار اسے باغی کے بجائے ’’داغی‘‘ کی پھبتی سہنا پڑی۔ملتان میں وہ ایک ایسے شخص سے ہار گیا جس پر بھتہ مافیا،ٹرانسپورٹ مافیا کی سرپرستی سمیت کئی الزامات ہیں۔جس شخص کا خاندان کئی عشروں سے سیاست میں ہے اور جو اسٹیٹس کو کی علامت ہے۔وہ شخص جس نے گزشتہ الیکشن میں جاوید ہاشمی کے مقابلے میں صرف 20ہزار ووٹ حاصل کئے اس بار تقریباً 15ہزار کی برتری سے جیت گیا۔میرے خیال میں یہ جاوید ہاشمی کی شکست نہیں قوم کے اجتمائی شعور کی ہار ہے۔جس ملک میں فاطمہ جناح ہار جائے اور ایوب خان جیت جائے،جس ملک میںشاہ احمد نورانی کے مقابلے میں آفتاب احمد شیخ الیکشن جیت جائے،جہاں پروفیسر غفور احمد جیسا بے داغ سیاستدان کنور خالد یونس جیسے امیدوار سے ہار جائے،جس ملک میں جعلی ڈوگری ہولڈر جمشید دستی نااہل ہونے کے بعد دوبارہ منتخب ہو جائے ،اس ملک میں عامر ڈوگر کی کامیابی پر کیسا تعجب؟ جاوید ہاشمی جیت جاتا تو میرے نزدیک یہ اپ سیٹ ہوتا۔
جاوید ہاشمی کے ہارنے کی بہت سی وجوہات تھیں۔جاوید ہاشمی کا آبائی حلقہ مخدوم رشید والا ہے جو نئی حلقہ بندیوں کے باعث ان سے چھن گیا۔NA149پر انہو ں نے 2008ء میں پہلی بارمسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ۔دوسری بار انہوں نے 2013ء میں تحریک انصاف کے انتخابی نشان پر کامیابی حاصل کی۔اس حلقے پر ان کی انتخابی مہم میں شاہد محمود خان پیش پیش ہوتے جو PP194 سے ایم پی اے تھے مگر جاوید ہاشمی کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور نشست چھوڑ دی۔پی ٹی آئی نے انہیں ٹکٹ نہ دیا تو وہ جاوید ہاشمی کے پاس گئے،جاوید ہاشمی نے بھی لاچارگی و بے بسی کا اظہار کیا تو ناراض ہو گئے۔اس بار ضمنی الیکشن میں شاہ محمود کی طرح شاہد محمود خان کی بھی کوشش تھی کہ جاوید ہاشمی کو شکست ہو۔مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کے برعکس مقامی قیادت جاوید ہاشمی کے سخت خلاف تھی۔انہوں نے جاوید ہاشمی سے قدم تو ملا لئے مگر دل نہ ملا سکے۔جاوید ہاشمی کے تشخص کو اس تاثر نے بھی نقصان پہنچایا کہ انہوں نے یہ حالیہ بغاوت مسلم لیگ (ن) سے ساز باز کر کے کی ہے۔اسی تاثر کے باعث مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف کے برعکس اپنے حمایت یافتہ امیدوار کی بھرپور انتخابی مہم چلانے سے گریز کرتی رہی۔بہتر ہوتا کہ جاوید ہاشمی جمہوریت کے خلاف سازش بے نقاب کرنے اور مستعفی ہونے کے بعد اس ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لیتے تو جو پراکسی وار بن گیا اور یوں ان کا ایک قد آور شخصیت کا بھرم قائم رہتا۔بہر حال جن افراد کو اس سوال میں دلچسپی ہے کہ ملتان میں کون جیتا اور کون ہارا ،ا ن کے لئے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ اس انتخاب میں جمہوریت ہی نہیں عمران خان کی تبدیلی بھی ہار گئی،اسٹیٹس کو نے حالات کا فائدہ اٹھایا اور فتح صرف انتقام کی ہوئی۔
تازہ ترین