• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں شریف کو ہم سے بچھڑے ہوئے دس سال ہو رہے ہیں مگر انکی یاد اور ا نکے کارناموں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ایک سیدھا سادہ سا آدمی اپنے چھ بھائیوں کیساتھ ایک عزم لئے اور ایک مقصد کیساتھ نکلا اسے پاکستان کی تاریخ میں لوگ کبھی نہیں بھول پائینگے۔ اتفاق اور اتحاد کے باعث اللہ تعالیٰ نے انکے کا روبار کو جمع کی بجائے ضرب کی شکل میں ترقی دی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ملک کی اقتصادی و صنعتی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جو خدمت انجام دی‘ ان کا اعتراف ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیا ہے۔ میاں صاحب انتہائی نیک سیرت تہجد گزار اور دیانت دار تاجر تھے۔ ساری زندگی اسلامی تعلیمات کیمطابق گزاری وہ غریبوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی ماہانہ امداد کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہوتی تھی۔ یہ مدد اس طرح کی جاتی تھی کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ ضرورت مندوں کے تعلیمی اخراجات، غریبوں کی بیٹیوں کی شادیاں کرنے کےلئے کوئی مخصوص فکس رقم نہ تھی۔ اللہ نے ہاتھ اتنا کشادہ کیا تھا کہ عام آدمی اسکا تصور نہیں کرسکتا۔ یہ بڑے دل کی بات ہے۔ ساری زندگی اپنی جیب میں ایک روپیہ بھی نہ رکھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے محنت کریں باقی سب اللہ پر چھوڑ دیں۔ وہ رزق دینے والا ہے، یہی انکی کامیاب زندگی کا راز تھا۔ انسانی فلاح کیلئے انہوں نے اپنی زندگی میں دو ہسپتال بنوائے۔ اتفاق ہسپتال اور شریف میڈیکل سٹی۔ وہ روزانہ ہسپتال جاکر مریضوںکی عیادت اور دیکھ بھال کرتے تھے۔ انکی مالی حالت دیکھ کر انتہائی رازداری سے مفت علاج کی ہدایت دیتے۔ ہسپتال کے معاملات دیکھتے، انہوں نے بہت عروج دیکھا لیکن فخر و غرور کی بجائے سادگی اپنائی اور یہی اپنی اولاد کو درس دیا۔ میاں شریف نے کبھی ہتھیار ڈالنا نہیں سیکھا۔ اپنی ابتدائی عملی زندگی میں غربت سے جنگ لڑی اور پوری زندگی ہتھیار ڈالنے کی بجائے فتح و کامرانی کے جھنڈے لہرائے۔ جب میاں نوازشریف کی حکومت کو ختم کیا گیا اور خاندان کے تمام مرد اور خواتین نظر بند کردیئے گئے اس وقت بھی یہ آہنی اعصاب کا مالک شخص نہ خوفزدہ ہوا نہ پسپائی اختیار کی اور اپنے محاذ پر ڈٹا رہا۔ 12 اکتوبر 1999ءکے فوجی آپریشن کے وقت میاں شریف کے بیٹے اور پوتوں کو جیلوں اور میاں شریف کو انکے گھر میں قید کردیا گیا اس دوران میری ان سے ملاقات ہوئی۔ انکے چہرے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی اور تشویش نہ تھی۔ وہ نوازشریف اور شہبازشریف سے ملنے کبھی جیل نہیں گئے اور فوجی حکومت کو یہ پیغام دیا کہ نہ وہ جذباتی ہیں نہ ہی کمزور۔ پھر 10 دسمبر 2000ءکو ان کو سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔ انکی وطن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے رائیونڈ میں تدفین کی وصیت کی تھی۔ 29 اکتوبر 2004ءکو ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی نماز جنازہ خانہ کعبہ میں ادا کی گئی۔ اس وقت کی حکومت نے انکی وصیت کا احترام تو کیا مگر انکے خاندان کے افراد کو پاکستان آ کر تدفین کرنے کا موقع نہ دیا۔ میاں شریف ایک انتہائی پُرعزم، بامعنی جدوجہد سے بھرپور بامقصد زندگی گزارنے کے بعد ا س دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ تحمل مزاج، بردبار دوراندیش، صابر، خدا ترس، اصول پسند، وقت کے پابند، نیک سیرت، پرہیزگار، اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا، محبت کا مجموعہ، کاروبار سے لگن ان صفات میں شامل تھیں۔ دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم آدمی تھے۔
تازہ ترین