• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسے لگتا ہے کہ ایم کیو ایم ایک بار پھر سندھ کی بجائے اسلام آباد کی طرف اڑان کرنا چاہتی ہے، اس کے امکانات منگل کو اسلام آباد میں ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی وزیر اعظم نواز شریف سے ہونے والی ملاقات اور اس ملاقات میں زیر غور آنے والے ایشوز کے مدنظر کافی روشن نظرآرہے ہیں، اس ملاقات کے بارے میں مختلف اخبارات میں مختلف خبریں شائع ہوئی ہیں، ایک اخبار نے ’’ذرائع‘‘ کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی حالانکہ دیگر ذرائع سے ان اطلاعات کی توثیق نہیں ہوئی ہے اور نہ اس سلسلے میں اطلاعات آئی ہیں کہ ایم کیو ایم کا کیا ردعمل تھا، سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگریہ اطلاعات درست ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف نے واقعی ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی ہے تو یہ بات یقینی سمجھنی چاہئے کہ ایم کیو ایم یہ دعوت قبول کرلے گی کیونکہ وہ سندھ میں پی پی کے اتحاد اور حکومت سے الگ ہوچکی ہے،بہرحال کچھ سیاسی عناصر ان اطلاعات کو تسلیم نہیں کررہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اگر واقعی ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی ہے تو اس کا پی ایم ایل (ن) سندھ کی قیادت میں خاصا منفی ردعمل ہوسکتا ہے، بہرحال جب وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے ان کے پی پی سے ہونے والے اختلافات کا ذکر کیا تو جواب میں وزیر اعظم نے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو مشورہ دیا کہ وہ بات چیت کے ذریعے پی پی سے اپنے اختلافات حل کریں، ساتھ ہی وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں اگر ضرورت پڑی تو میں بھی اپنا کردار ادا کروں گا‘ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو اس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم فی الحال ایسا کوئی کردار ادا کرنے سے پرہیز کرنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف پی پی اور ایم کیو ایم کے تعلقات میں اور دوری پیدا ہوجائے اور ساتھ ہی پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے تعلقات بھی متاثر ہوں۔ دریں اثناء کچھ دیگر اخبارات کے مطابق جب ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے اس ملاقات کے دوران انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کی بات کی تو وزیر اعظم نوازشریف نے اس تجویز کی حمایت کی اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو اس کے نتیجے میں پی پی اور پی ایم ایل (ن) کے تعلقات میں دوری پیدا ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی خود پی ایم ایل (ن) کے سندھ کے رہنمائوں میں بھی منفی ردعمل ہوسکتا ہے بہرحال اگر ایم کیو ایم پی ایم ایل (ن) کی دعوت پر وفاقی کابینہ میں شامل ہوجاتی ہے تو ایسا پہلی بار نہیں ہوگا۔
ایم کیو ایم اس سے پہلے بھی ایک سے زیادہ بار پی ایم ایل (ن) کی اتحادی رہ چکی ہے، ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر بار پی ایم ایل (ن) اور ایم کیو ایم کا اتحاد زیادہ دیر نہیں چل سکا اورجلد مختلف وجوہ کی بنیاد پر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوتی رہے ہیں‘ایم کیو ایم نہ صرف پی ایم ایل (ن) کے ساتھ بلکہ ماضی میں ایک سے زائد بار پی پی کی بھی اتحادی رہ چکی ہے اوردونوں اکٹھے اتحادی حکومتیں چلاتی رہی ہیں، ہمیں یاد ہے کہ جب 1988 ء کے انتخابات کے نتیجے میں پی پی نے سندھ اور وفاق میں حکومتیں بنائیں تو دونوں جگہوں پر ایم کیو ایم بھی پی پی کی اتحادی تھی، مگر ایک دو سال کے اندر جب اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف پی ایم ایل (ن) نے اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تو ایم کیو ایم پی پی کا ساتھ چھوڑ گئی اور عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دینے لگی حالانکہ اس سلسلے میں دونوں جماعتوں کی طرف سے مختلف وجوہات بتائی گئیں اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف متعدد الزامات لگائے، بہرحال جب سے اس وقت سندھ میں پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان اتحادی حکومت بنی تب سے ان کے معاملات بداعتمادی پر مبنی اور uneasy رہے ہیں مگر یہ تعلقات اس وقت شدید اشتعال کا شکار ہوگئے جب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا یہ بیان آیا کہ وہ لفظ مہاجر کو ’’گالی‘‘ سمجھتے ہیں، یہ وہ وقت تھا جب پی پی ہفتہ کو بلاول بھٹوزرداری کے جلسے کی زور شور سے تیاری کررہی تھی اور خود ایم کیو ایم کے الطاف حسین نے ایک بیان میں پی پی کے جلسے کے سلسلے میں نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کو غیر مشروط حمایت فراہم کرنے کی ہدایات دیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ خورشید شاہ نے فوری طور پر اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے مہاجر لفظ کے لئے گالی کا لفظ استعمال کرنے پر معذرت کرلی مگر میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ سید خورشید شاہ قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن ہونے کے ناتے صف اول کے رہنماء ہیں، ایسے رہنمائوں کو ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ کے اصول کے تحت بیان جاری کرنا چاہئے مگر چلئے غلطی انسان سے ہوتی ہے، دوسری طرف ایم کیو ایم کی قیادت نے بھی خورشید شاہ کی معذرت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ بہرحال خورشید شاہ کی اس بات سے ان کو تکلیف ہوئی ہے، یہ بات بھی کسی حد تک درست تھی، بہرحال کم و بیش یہ ایشو اس وقت کافی حد تک دفن ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا‘ اس کے بعد ہفتہ کو قائد اعظم کے مزار پر پی پی کا ایک بہت بڑا جلسہ عام ہوا جس میں نہ فقط سندھ بھر سے مگر سارے صوبوں سے پی پی ورکرز اور حمایتیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بار بلاول بھٹو کا اردو کا لہجہ کافی حد تک ٹھیک تھا اور آدھے پون گھنٹے تک ان کی تقریر کافی حد تک ٹھیک تھی مگر بعد میں تقریر کو نہ فقط بغیر سبب کے لمبا کردیا گیا مگر ملک کے ہر ایشو پررائے زنی کرتے ہوئے اکثر سیاسی رہنمائوں پر یا تنقید کی گئی یا ان کا طنزاً ذکر کیا گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے کسی بھی رہنماء کو گالی نہیں دی مگر یہ جو باتیں کی گئیں وہ غیر ضروری تھیں، مگر بعد میں خاص طور پر ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے اس تقریر کو خورشید شاہ کی مہاجروں کے بارے میں بیان سے ملا کر بڑے تند و تیز بیانات جاری کرنے کے ساتھ کبھی سندھ میں نئے صوبہ بنانے تو کبھی سندھ کو مختلف حوالوں سے تقسیم کرنے کے بیانات جاری کئے گئے اگر ان بیانات کا تجزیہ کیا جائے تو بڑا دکھ ہوتا ہے، ان میں تمکنت اور غرور جھلک رہا تھا مگر جو سندھ کے لئے الفاظ استعمال کئے گئے وہ بھی نامناسب تھے کہ پہلی بار سندھ کے لئے ایک نئی ٹرم ’’متروکہ سندھ‘‘ استعمال کی گئی اور علی اعلان خود کو ایک بار پھر مہاجر ڈکلیئر کرکے کہا گیا کہ مہاجر متروکہ سندھ کے مالک ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جو ہندو اپنی جائیداد سندھ میں چھوڑ کر ہندوستان گئے وہ ان کی ملکیت ہے، ہمیں پتہ نہیں ہمارے ان محترم بھائیوں کو سندھ کی یہ تاریخ کس نے پڑھائی ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی، ہاں یہ بات ضرور تھی کہ کچھ سندھی زمینداروں کی اپنی زمینیں ہندو سیٹھوں کے پاس گروی رکھی ہوئی تھیں مگر غیر منقسم ہندوستان میں کہاں ایسا نہیں ہورہا تھا‘ بہرحال منگل کو ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے لندن سے جو خطاب کیا ہے اس کی جو رپورٹ بدھ کے اخبارات میں شائع ہوئی ہے وہ کافی حد تک مثبت ہے اور اس کے نتیجے میں سندھ کے اندر جو ٹینشن پھیل رہی تھی اس میں کافی کمی آسکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایم کیو ایم بننے کے بعد حیدرآباد میں ہونے والے پہلے جلسے سے پہلے ان کی میرے اور کچھ اور سندھی صحافیوں کے ساتھ ان کی طرف سے دی گئے ڈنر پر جو بات چیت ہوئی تھی اس میں الطاف حسین کا ایک ہی فلسفہ سامنے آیا کہ ’’میں سندھیوں اور مہاجروں کو اکٹھے ملاکر آگے بڑھنا چاہتا ہوں‘‘ میں چاہوں گا کہ اگلے کالم میں اس ملاقات اور اس کے بعد کی ایک آدھ ملاقات کا ذکر کروں۔
تازہ ترین