قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پیٹرول پر عوام کوریلیف نہیں ملا،35 فیصد سیلز ٹیکس ڈال دیا گیا،عوامی مسائل پر حکومت کی توجہ نہیں ،ووٹ لینےکیلئےپاؤں پرہاتھ رکھتےہیں،ایوان میں آکرعوام کےمسائل بھول جاتےہیں۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ ہمیں ریاست کے کمرشل یا فلاحی ہونے کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہوگا ، وزیر اعظم یہ پوچھتے تک نہیں کہ عوامی کے حالات اور مسائل کیا ہیں، بادشاہت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
ان کا کہناتھاکہ پاکستان کی تاریخ میںکبھی پیٹرولیم مصنوعات پر اتنا سیلز ٹیکس نہیں لگا جتنا موجودہ حکومت نے لگایا ہے، حکومت غریب کا پیٹ کاٹ کر تو اپنا خزانہ نہ بھرے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ ہم غریبوں کی اواز بلند کرنے کا مینڈیٹ لیکر ایوان میں آتے ہیں، لیکن یہاں میں آکر انہیں بھول جاتے ہیں، وزیر اعظم نے کہا تھا کہ پیٹرول پر ریلیف دیں گے،لیکن وہ ریلیف نہیں ملا، پیٹرول پر سیلز ٹیکس میں اضافہ کیا گیا، ڈیزل پر 35 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا، جو بین الاقومی ریلیف عوام کا حق بنتا ہے اسے حکومت اپنے خزانے میں ڈال رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ایک ملین ڈالر غریب عوام کی جیب سے نکال کر اپنا ریونیو بڑھانے کی ناکام کوشش کی ہے، حکومت غریبوں کی بے بسی پر اورینج ٹرین چلا رہی ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم شاید اس بات کا نوٹس لےلیں، لیکن انہیں تو شاید کوئی بتانے والی ہی نہیں ہے اور نہ خود ایسا پوچھتے ہیں، بادشاہت میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ بیر بل کو مسائل بتانے والا کوئی نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اتنی بے بسی ہے کہ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں، ایک موٹر وے پولیس کا ملازم آئی جی کے پاس گیا کہ میری تنخواہ ادا کی جائے، آئی جی موٹر وے نے اسے بالوں سے اٹھا کر باہر پھینک دیا ، اس ملازم نے خود کشی کر لی، کیا اس بات کی کوئی انکوائری کرنے والا ہے؟
خورشید شاہ نے کہا کہ ہم کس پارلیمنٹ ، کون سی جمہوریت، کونسے آئین کی بات کر رہے ہیں، اگر حالات یہی رہے تو پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے لوگ انگلیاں اٹھائیں گے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ آج چھ ستمبر ہے ، ہمارے جوانوں نے قربانی دے کر ہندوستان کو منہ توڑ جواب دیا مگر ہم یہ بھی سوچیں کہ 6 سال بعد 71 میں کیا ہوا، ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے، لیڈر کا کام ہے وفاق کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 6 ستمبر کو شاہینوں نے ملک بچایا تھا، آج یہ ذمہ داری ہم سولین پر ہے کہ ہم کیا فیصلے کرتے ہیں ، ہمیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔