گزشتہ دنوں ذوالفقار چیمہ کا کالم نظر سے گزرا۔ چیمہ صاحب نے یہ کالم دکھی دل کے ساتھ لکھا، ممکن ہے، ان کے ہاں اس وقت آنسوئوں کی برسات ہو، چیمہ صاحب جیسے افسران اب خال خال نظر آتے ہیں جنہیں ہمہ وقت یہ احساس رہتا ہو کہ قائداعظمؒ کی تصویر انہیں دیکھ رہی ہے۔ وہ کسی نہ کسی روز خدا کو جواب دہ ضرور ہوں گے۔ ان کا ضمیر، اپنے وطن کو کیا کہے گا؟ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک طرف پاکستان کا احساس کرنے والے چند افسران ہیں تو دوسری جانب اپنی ذات کا خیال کرنے والوں کی اکثریت ہے۔ مثال کے طور پر سلمان فاروقی ہی کو لے لیجئے۔ فاروقی صاحب این آر او کا ’’حسین‘‘ تحفہ تھے۔ این آر او اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس افسر کا ماضی بھی مبینہ طور پرداغدار تھا، وہ این آر او کے دودھ سے نہا کر آئے تو ایوان صدر میں براجمان ہوگئے۔ ایوان صدر میں انہوں نے اپنی مرضی شروع کردی۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے کرشمے کے طور پر کروڑوں کی عیدی ہضم کی۔ یہ خبر بھی سننے میں آئی کہ ان کی اہلیہ کا امریکہ میں علاج پاکستانی عوام کے پیسوں سے ہوا، یہ رقم ہزاروں میں تو نہیں تھی، یہ انہونی راجہ پرویزاشرف کے زریں عہد میں ہوئی۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آپ کے ملک میں بعض ایسے بیوروکریٹس بھی ہیں، جنہیں ریٹائرہوئے بارہ بارہ سال بیت چکے ہیں مگر ان کے اور ان کے بیوی بچوں کے بیرون ملک علاج اب بھی پاکستانی عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم کے ذریعے ہوتے ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں کہ وہ زکٰوۃ کو بھی اپنے اوپر حلال تصور کرتے ہیں، میڈیا سارا دن سیاست دانوں کے پیچھے لگا رہتا ہے مگر اس کا دھیان اپنے ملک کے حسین جسم کے ساتھ لپٹی ہوئی ان جونکوں کی طرف نہیں جاتا۔ جن کے گھروں میں دس دس سرکاری گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں دفتری ملازمین سبزی لانے میں لگے رہتے ہیں، بیوی اور بچے سرکاری گاڑیوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قائداعظمؒ کی تصویر کچھ بھی نہیں کہہ پاتی، جنہیں یہ خوف ایک لمحے کے لئے بھی نہیں آتا کہ وہ اپنے پیارے ملک کو لوٹ رہے ہیں، اس کے ساتھ ایمانداری نہیں کررہے، اپنے فرائض میں کوتاہی برت رہے ہیں، ان لوگوں کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ جو پیسے ہوا میں اڑا دیتے ہیں وہ اس غریب ملک کے غریب لوگ بمشکل دیتے ہیں۔ دوران ملازمت ان کا احساس مرجاتا ہے، بہت سوں کا تو یہ یقین بھی نہیں رہتاکہ انہیں ایک روز خدا کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ کراچی کی اسٹیل مل میں جو ایک اور فاروقی تھے ان کے بارے میں بھی سوالات اور الزامات گردش کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے جرائم اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہاں فرض شناس لوگوں کی کمی ہوتی جارہی ہے، ایسے افسران کم ہوتے جارہے ہیں جو اپنے فرائض اپنے ملک کی محبت میں ادا کرتے ہیں۔
صرف ایک بیوروکریسی ہی نہیں تمام شعبوں میں یہی صورت حال ہے، عدالتیں بھی اب تک وہ انصاف مہیا نہیں کرسکیں جس کی آرزو ملک کی دھرتی کررہی ہے بلکہ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ …’’ہمارے دور میں تو عدالتوں نے ہمیں کام ہی نہیں کرنے دیا…‘‘
وطن سے محبت کا اندازہ اس بات سے کرلیجئے کہ تھر میں موت صف بچھائے بیٹھی ہے مگر وہاں کچھ نہیں کیا جارہا۔ یہ کیسی حکومتیں ہیں جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر ہی نہیں، صرف دعوے کئے جارہے ہیں سندھ کے ایک خواب فروش وزیر صاحب فرماتے ہیں کہ تھر میں بچے بھوک سے نہیں، غربت سے مررہے ہیں‘‘۔ کاش انہیں کوئی سمجھانے والا ہو کہ غربت ہی بھوک کو جنم دیتی ہے۔ اگر یہ خوابی وزیر غربت اور بھوک میں مزید تفریق کرکے وضاحت کردیتے تو بہت اچھا ہوتا۔ پتہ نہیں انہوں نے دنیا کی کس یونیورسٹی سے ایسے فلسفے پڑھے ہیں۔
عاشقی بھی ہر جگہ موجود ہے۔ ملتان جیل میں تو ایک شخص محض قیدی ہونے کے باعث بدنام ہوگیا، اس نے دیدار کی چاہت میں انوکھا کام کیا، اب مریض محبت زیرعلاج ہے۔ کچھ جگہوں پر عاشقی بدنامی سے بچ جاتی ہے۔ اسلام آباد میں مقیم ایک ٹی وی اینکر کے لئے سندھ کے ایک وزیر نئی نویلی گاڑی بھیج رہے ہیں۔ آپ جس وقت یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت تک گاڑی متعلقہ فریق کو پہنچ چکی ہوگی۔ ٹی وی اینکر کی گاڑی پچھلے دنوں ایک حادثے میں تھوڑی سی ’’زخمی‘‘ ہوگئی تھی۔ اس پر وزیر بہادر کا دل زخمی ہوگیا۔ اس لئے اس نے نئی گاڑی کا بندوبست کردیا۔ یہ نیک فریضہ اس صوبے کا وزیر انجام دے رہا ہے جس صوبے میں تھر میں موت رقص کررہی ہے، بچے بھوک سے موت کی وادی میں اتر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک گاڑی بہت عزیز ہو حالانکہ اس قیمت سے تھر کے ہزاروں بچوں کا علاج ہوسکتا تھا، ہزاروں انسان موت سے بچ سکتے تھے۔
نیپا کورس کرنے والے افسران پچھلے دنوں اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مختلف اداروں کا دورہ کیا۔ جب سپریم کورٹ کا دورہ ہوا تو چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے ایک ــ’’شیر‘‘ افسر سے پوچھا کہ ’’…الیکشن کمیشن میں انتظامی حالات پریشان کن ہیں اور آپ کورس پر چلے گئے، آپ نے کوئی این او سی لیا ہے‘‘۔ یہ جملے سننے کے بعد شیر صاحب مشیر نہ رہے بلکہ ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ایک اور ’’شاہ‘‘افسر کو کرنا پڑا۔ نوکری لاہور میں کرتے ہیں مگر وہ بہت ’’لمبی اننگز‘‘ سی ڈی اے اسلام آباد میں کھیل رہے ہیں،کل کو اگر کچھ چیزیں سامنے آگئیں تو لوگ ششدر رہ جائیں گے کہ منظور نظر افسران کے ہاتھ کتنے لمبے ہوتے ہیں۔
آج کل چیف الیکشن کمشنر سے متعلقہ بحث ہورہی ہے۔ پتہ نہیں سیاستدانوں کو یہ کوئی آسمانی صحیفہ کہاں سے ملا ہوا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سابق جج ہی ہونا چاہئے حالانکہ جب بھی الیکشن کسی سابق جج کے زیرسایہ ہوئے، وہ متنازعہ ہی ہوئے۔ ان ججوں کے علاوہ بھی اس ملک میں بے شمار ایماندار لوگ ہیں جج تو جانبدار ہوسکتا ہے مگر ایماندار آدمی جانبدار نہیں ہوسکتا۔
عاشورہ کے بعد پاکستانی سیاست ایک مرتبہ پھر گرم ہوگئی ہے۔ عمران خان نے پہلا جلسہ رحیم یار خان میں کردیا ہے، عمران خان اس وقت مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ حسب سابق رحیم یار خان میں بھی ان کا جلسہ بہت کامیاب رہا۔ اس جلسے میں انہوں نے حکومت کو کمیشن بنانے کا کہہ کر سمجھانے کی کوشش کی اور ساتھ ہی 30نومبر کا تذکرہ کرکے ڈرانے کی بھی کوشش کی۔ عمران خان نے جسٹس (ر) جیلانی پر عدم اعتماد بھی کیا اور ساتھ ہی یہ کہہ ڈالا کہ …’’عدلیہ آزاد تو ہوگئی مگر غیرجانبدارنہ ہوسکی…‘‘رحیم یار خان سے واپسی پر عمران نے اسلام آباد میں کنٹینر سے خطاب کے دوران فرمایا کہ مجھے دھرنے کے 88دنوں میں بہت سے لوگوں کی سمجھ آگئی۔ بہت سے لوگوں کا پتہ چل گیا کہ مشکل وقت میں کون ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور کون ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ عمران خان کے نزدیک دھرنے نے ان کی پارٹی کے کئی لوگوں کو بے نقاب کیا، ہر ایک کا ’’چہرہ‘‘ کھل کر سامنے آگیا۔
آخر میں الطاف بھائی کی بات بھی کرلیں۔ الطاف حسین نے اپنے تازہ ترین ارشاد عالیہ میں فرمایا ہے کہ …’’جمہوریت کے نام نہاد دعوے دار بلدیاتی الیکشن کیوں نہیں کرواتے، بلدیاتی الیکشن سے جاگیردارانہ سیاست اپنی موت آپ مرجاتی ہے …‘‘ الطاف بھائی کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر بلدیاتی الیکشن ہوگئے تو پھر بہت سے لوگوں کی مقبولیت کا پول کھل جائے گا، عام لوگوںکے مسائل ان کی دہلیز پرحل ہونے شروع ہوجائیں گے۔ سب کچھ سامنے آنے کے ڈر سے بلدیاتی الیکشن نہیں کروائے جارہے ، جاتے جاتے رقیہ غزل کا خوبصورت شعر
ایسی فریبی دنیا سے توبہ مرے خدا
مطلب کی بات کرتے ہیں مطلب پرست لوگ