٭…اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ یہ کہنا غلط ہے کہ صرف فوج ہی نیشنل ایکشن پلان پر عمل کر رہی ہے اور حکومت نہیں کر رہی،قومی ایکشن پلان کے 9 نکات صوبائی حکومتوں سے متعلق ہیں، دہشت گرد ی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائینگے اور اس ناسور کا ملک سے جلد اور مکمل طور پر خاتمہ کر کے دم لیں گے،مردان اور کوئٹہ دھماکوں کے حوالے سے خفیہ ایجنسیوں کی معلومات میں سامنے آچکاہے کہ کونسی جماعتیں اور گروپ حملوں میں ملوث ہیں، اب تک کی تحقیقات کے مطابق وارسک روڈ واقعے میں مارے جانے والے چاروں دہشت گرد غیر ملکی تھے ، کوئٹہ واقعے میں ملوث ہونے کے شبے میں 3دہشت گرد گردفتار ہوچکے ہیں ، ان سے تحقیقات جاری ہے ، ان حملوں میں ملوث سہولت کاروں کے حوالے سے تفتیش جاری ہے، سارا ملبہ ایجنسیوں پر نہ ڈالیں، نیشنل ایکشن پلان سویلین ہے، فوج کی تعریف ضرور کریں لیکن پولیس کو نہ بھولیں جنہوں نے تربیت اور اسلحے کے بغیر جان ہتھیلی پر رکھی ہوئی ہے، ایجنسیوں پر تنقید پر کوئی اعتراض نہیں، ایجنسیا ں اپنا کام احسن طریقے سے کر رہی ہیں، ان کیمرہ اجلاس میں تفصیل دینے کیلئے تیار ہوں ، 20ہزار کے قریب انٹیلی جنس آپریشن ہو چکے ہیں اور ہزاروں کے حساب سے دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے ہیں،بہتری سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے آئی ہے، سانحہ پشاور ، بنوں جیل اور دیگر واقعات کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی، جعلی شناختی کارڈ رکھنے والوں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا،تنقید ضرور کریں مگر اچھی کارکردگی پر کریڈٹ بھی ضروری ہے،گزشتہ چندسالوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ وہ بدھ کو یہاں سینیٹ میں سانحہ کوئٹہ اور مردان کے حوالے سے جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے خطاب کررہے تھے وفاقی وزیرداخلہ نے اس دوران کہا کہ کوئٹہ اور مردان میں ہونے والے واقعات بڑے افسوس ناک تھے ، بعض ایسی باتیں بھی کی گئی جس کا زیر بحث مسئلے سے کوئی تعلق نہیں تھا، بعض باتیں جن کا تاثر جس طرح دیا جاتا ہے حقیقت مختلف ہوتی ہے، شہداءکے لواحقین اور ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے بیٹے کی شہادت پراظہار تعز یت کرتا ہوں، ہر انسانی جان قیمتی ہے ، دکھ ہوتا جب والدین اولاد کے جنازے اٹھاتے ہیں، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے صبر اور استحکام کے ساتھ مشکل ترین آزمائش کا مقابلہ کیا ان کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ، اللہ تمام لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے ، افسوس اور مذمت کے علاوہ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ، سب سے بڑی ذمہ داری حکو مت ، پارلیمنٹ ، ادا ر وں اور عوام پر ہوتی ہے جوجنگ لڑ رہے ہیں اس میں دشمن سامنے نہیں ہے ، مختلف جنگ ہے دشمن ہمارے اندر ہے ، زبان اور رنگ ہماری طرح ہے ، سارے ماحول کا فائدہ دشمنان اٹھاتے ہیں ، کچھ دوست نما دشمن ہیں ، کچھ کھلے دشمن ہیں۔ گزشتہ حکومتوں کے اعداد و شمار 2006 سے اب تک نکالیں تو بہتری آئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر سول اداروں نے کام نہیں کیا ۔ ضرب عضب نیشنل ایکشن پلان سے سات ماہ پہلے شروع کیا گیا ۔ 20میں سے 9پوائنٹس صوبوں سے متعلق ہیں ۔ سات مختلف وزارتوں سے متعلق ہیں ۔ تین وزارت داخلہ کے تھے اور ایک فاٹا ریفارمز کے حوالے سے تھا ۔ لیکن وزارت داخلہ کو تنقید کر کے پوائنٹ اسکورنگ کی جاتی ہے۔ خیبرپختونخوا اورسندھ حکومت سیاسی طور پر ہماری مخالف ہے لیکن غلطیوں پر کبھی تنقید نہیں کی۔ کیونکہ ملکر جنگ لڑنی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات 2000سالانہ ہوتے تھے اب کم ہو کر 200 ہوگئے ہیں ۔ لیکن یہ واقعات بھی بہت زیادہ ہیں ایک بھی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہونا چاہیے ۔ دہشت گردی کے واقعات میں اموات 39فیصد 2015میں کمی آئی۔ 2016میں 54فیصد کمی آئی ہے ۔ واضح بہتری آئی ہے ۔ اس کے لئے سیکورٹی فورسز کی ہمت بڑھائی ہے جنہوں نے جانوں کی قربانیاں دیکر بہتری لائی۔ جون2013سے قبل دھماکے ہونا خبر نہیں تھی ۔ دو تین دھماکے روزانہ ہوتے تھے ۔ دھماکے نہ ہونا خبر ہوتی تھی۔ جنگ ابھی جاری ہے ۔ جنگوں میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکز ئی کا میاں نوازشریف سے تعارف میرے ذریعے ہوا تھا۔ 2001میں میں نے یہ بیان دیا تھا کہ سیاسی طور پر خان عبدالولی خان اور محمود خان اچکزئی کی پسند ہیں ۔ کیونکہ دونوں اصول پسند ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کے ایجنسی کے حوالے سے ایک جملے کا جواب دیا کہ ایجنسیاں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ بہت سارے واقعات کی ایجنسیوں نے پہلے ہی اطلاع دی۔بنوں جیل، کراچی ایئر پو ر ٹ اور باچا خان یونیورسٹی اور دیگر جگہوں پر حملوں کی اطلاعات ایجنسیوں نے پہلے ہی کر دی تھی۔اس بارے میں ان کیمرہ اجلاس میں تفصیل دینے کے لئے تیار ہوں۔ 20ہزار کے قریب انٹیلی جنس آپریشن ہو چکے ہیں اور ہزا رو ں کے حساب سے دہشت گرد پکڑے اور مارے گئے ہیں ۔ بہتری سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے آئی ہے ۔ دہشت گردی کا ناسور ختم کر کے دم لیں گے ۔چوہدری نثار نے کہا کہ ماضی میں جعلی شناختی کارڈ جاری کئے گئے ۔ ہمارے پاسپورٹ سے انسانی اسمگلنگ کی گئی ۔ 2000 سے زائد پاسپورٹ کینسل کئے ان میں بڑے بڑے لوگ شامل تھے۔جنرل مشرف کے دور میں ایک شناختی کارڈ کی پکڑ نہیں کئے گئے۔ پہلے سال 60000،90000اور اس سال ڈیڑھ لاکھ شناختی کارڈ بلاک کئے جا چکے ہیں ۔ لوگ شکایات کر رہے ہیں ۔ جعلی شناختی کارڈ کی مہم کی کسی قبیلہ کے خلاف نہیں ہے ایسا کرنا گنا عظیم ہو گا۔ اس پر کمیٹی بنارہا ہوں۔ جعلی پاکستان کے پاسپورٹ کینسل کئے ہیں اس سے پہلے کس حکومت نے یہ اقدامات اٹھائے ۔ جعلی شناختی کارڈ رکھنے والے سیکورٹی کے لئے خطرہ ہیں ۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے راہنمائی لوں گا ۔ایوانوں کے ذریعے عزت کمائی ہے نہ چھپنے والا ہوں نہ ہی ایوان کو نظر انداز کروں گا ۔ ایوان جب بھی بلائے گا سر کے بل حاضر ہوں گا۔ معزز سینیٹر جب بھی بلائیں گے حاضر ہوں گا۔ دلائل کے ساتھ جواب دوں گا ۔ بلا جواز تضحیک کا تلخ جواب دوں گا۔اس وقت مردان اور کوئٹہ کے حملے میں انٹیلی جنس کی معلومات سے یہ سامنے آچکا ہے کہ کون سی جماعتیں اور گروپ ملوث ہیں ۔ واضح تحقیق سے سامنے آیا ہے کے اندر آکر جس نے اڑایا وہ خودکش بمبار تھا۔ وارسک کے قریب چار دہشت گرد یہاں سے آئے ان کے کوائف سامنے آچکے ہیں۔ کوائف بائیو میٹرک کرائے گئے تو کوئی ریکارڈ میچ نہیں ہوتے ۔ چاروں غیر ملکی تھے ۔ کہاں سے آئے یہ سب واضح ہو چکا ہے ۔ تفتیش جاری ہے ۔ کوئٹہ کے حوالے سے تین لوگ گرفتار ہوئے ہیں ان سے تفتیش جاری ہے ۔ سہولت کاروں کا پتہ لگانے کے لئے تفتیش جاری ہے ۔ تفتیش سیکورٹی ایجنسیوں اور حکومتوں کے لئے چیلنج ہے۔ مجرموں تک پہنچیںگے جب بھی مثبت پیش رفت سامنے آئی تو ایوان کو آگاہ کروں گا۔ سندھ اور خیبر پختوانخواہ کی حکومتوں سے اچھا ورکنگ رلیشن چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن میں سب سے زیادہ تعاون ان لوگوں نے کیا جو سیاسی طور پر ہمارے ساتھ نہیں ہیں، جب اختیارات کی بات ہوتی ہے تو بات کرتے ہیں لیکن ذمہ داری کے وقت صرف وفاق پر ڈالی جاتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افواج کی ہمت بڑھانی چاہیے، چند سالوں بڑی کامیابی حاصل کی ہے، لڑائی کو منتطقی انجام تک پہنچائیں اور ناسور کا خاتمہ کریں گے۔