جناب لیاقت بلوچ نے مجھے جماعت اسلامی کے اجتماع عام کے اختتامی اجلاس میں شرکت کا جو دعوت نامہ دیا اس کے ساتھ گاڑی کو وی آئی پی گیٹ سے اندر لانے کا ا سٹیکر بھی موجود تھا ۔ تاہم میں نے اسٹیج پر مقید ہو کر بیٹھنے کے بجائے عام گیٹ سے اندر داخل ہونے اور چل پھر کر جلسہ دیکھنے اور دریوں پر بیٹھ کر جلسہ سننے کو ترجیح دی۔ یوں اُن یادوں کو تازہ کرنے کا موقع بھی مل گیا جب ہم لڑکپن میںدریوں پر بیٹھ کر مولانا مودودی ؒ ،نوابزادہ نصر اللہ خان اور آغا شورش کی تقاریر سنا کرتے تھے۔ آج کل جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کی گرم بازاری اور شعلہ بیانی عروج پر ہے ۔ کہیں مقررین شعلے اگلتے اور زہر میں بجھے تیر برساتے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں جیالے اور متوالے کھانے پر ٹوٹے پڑتے اور آپس میں ہی ایک دوسرے سے گتھم گتھا نظر آتے ہیں۔مگر جماعت اسلامی کی ساری اجتماع گاہ کا میں نے اپنے دو تین ساتھیوں سمیت چکر لگایا مگر کہیں پر شرکاء کو ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان تو دور کی بات آپس میں بحث وتکرار کرتے بھی نہیں دیکھا بلکہ اس کے برعکس وہ ایک دوسرے کے غمگسار اور مدد گار دکھائی دئیے۔
تیسرے روز کے اجلاس میں کلیدی خطاب جناب سراج الحق کا تھا۔ اگرچہ وہ ایک پرجوش مقرر ہیں مگر وہ ایک ایک لفظ خوب سوچ سمجھ کر بولتے ہیں ۔میں نے ہمہ تن گوش ہو کر سراج الحق کا ولولہ انگیز خطاب سنا۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان اور ظالم طبقہ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوںنے کہا کہ حکمرانوں کے محلات پاکستان کے ہر بڑے شہر اور دنیا کے خوبصو رت ترین مقامات میںہیں جبکہ غریبوں کو گھاس پھونس کی جھونپڑی بھی میسر نہیں۔ امیروں کے محلات بجلی کے قمقموں سے بقعہء نور بنے ہوتے ہیں جبکہ غریبوں کی جھونپڑیوں میں ٹمٹماتا ہوا دیا کبھی جلتا اور کبھی بجھتا ہے ۔ اس وقت ہر پاکستانی شہری88 ہزار روپے کامقروض ہے ۔ا نہوں نے کہا کہ آپ کے ووٹ کی قوّت سے جب ہم برسراقتدار آئیں گے تو ملک سے غربت بے روزگاری اور جہالت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دینگے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پانچ اشیائے ضرورت پر سبسڈی دیں گے ۔ان اشیاء میں آٹا،دال، چاول، چینی اور چائے شامل ہیں۔ ملک کی 64فیصد آبادی جوانوں پر مشتمل ہے جنہیں روزگار دے کر ملک کو ترقی وخوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے ۔اسی طرح سراج الحق نے پانچ موذی امراض کے مفت علاج کا بھی اعلان کیا ان امراض میں کینسر،گردوں ،دل ،جگر اور ٹی بی کی بیماریاںشامل ہیں۔
یہ سارے اعلانات بڑے دلفریب ،بڑے خوش نما اور بڑے حوصلہ افزاء تھے۔ انہیں سن کر ہمارے دل میں یہ خیال آیا کہ تعلیم ،علاج معالجے اور روزگار کیلئے اتنی خطیر رقم کہاں سے آئے گی۔میں اسی شش وپنج میں مبتلا تھا کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف جناب الطاف حسن قریشی تھے۔ انہوںنے اگلی صبح اپنے دولت کدے پر جناب سراج الحق صاحب کے ساتھ ناشتے کی دعوت دی۔ میں اگرچہ اگلی منزل کی طرف عازم سفر ہونے والا تھا مگر قریشی صاحب کی پر خلوص دعوت سے انکارمیرے بس کی بات نہ تھی۔ جناب سراج الحق حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرم دکھائی دیتے ہیں اور ہر سوال کا جواب پیارے بھائی کہہ کر دیتے ہیں میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ تعلیم ،روزگار اور علاج معالجے کے اتنے بڑے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے فنڈ کہاں سے لائیں گے ۔ا نہوںنے کہا کہ ہم اس موضوع پر اچھا خاصا ہوم ورک کر چکے ہیں ۔نیز مجھے ذاتی طور پر ایسے عوامی خدمت کے کاموں کی انجام دہی کا سرکاری تجربہ بھی ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ جب پہلی مرتبہ میں خیبرپختونخوا کا وزیرخزانہ مقرر ہوا تو میں نے سب سے پہلے سیکرٹری مالیات کو بلایا اور اُن سے کہا کہ صوبے کے تمام طلبہ وطالبات کو پرائمری تک کتب بالکل مفت فراہم کی جائیں یہ سن کر سیکرٹری صاحب سرپکڑ کر بیٹھ گئے اور انہوں نے کہا کہ سرآپ کیا فرما رہے ہیں ۔ایسا کسی طرح ممکن نہیں تاہم ہم بہت سے غیر ضروری اخراجات بندکرکے صوبے کے ہربچے اور بچی کو مفت کتب فراہم کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ میرے ارادے کے پس منظر میں میری وہ محرومی تھی جس سے مجھے اپنے بچپن کے دوران پالا پڑاتھا۔ جناب سراج الحق نے بتایا کہ جب میں تیسری چوتھی جماعت میں تھا تو مسلسل 25روز تک اسکول جاتا اور چار دیواری کے باہر بیٹھ کر گھر واپس آجاتا۔ میرے پاس اپنی جماعت کی کتابیں نہ تھیں اور کتب خریدنے کے لئے جو معمولی سی رقم درکار تھی وہ بھی ہمارے پاس نہ تھی اور ہمارا سخت گیر معلم تھا کہ وہ بغیر کتب کے مجھے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دینے پرہر گزآمادہ نہ تھا۔اس دوران میرے دل پر اور میری والدہ کے دل پر جو گزرتی وہ میں جانتا ہوں یا میرا خدا جانتا ہے ۔
اسی طرح ایک روز ایک نوجوان روتا ہوا میرے پاس آیا کہ اگر میرے پاس دو ہزار روپے ہوتے تو میرے والد کی جان بچ جاتی ۔ نوجوان نے بتایا کہ اس کے والد کسی حادثے میں زخمی ہو کر ایمرجنسی وارڈ پہنچے تو اسپتال والوں نے ایک ٹیکہ لانے کو کہا جس کی مالیت 2 ہزار روپے تھی میں فوری طور پر اس رقم کا بندوبست نہ کر سکا اور یوں میرے والد کی جان چلی گئی۔ اس روز مجھے شدّت سے احساس ہوا کہ غریب اس ملک میں کتنا بے بس اور کتنا بے سہارا ہے۔ اس روز سے ہم نے ایمرجنسی میں ہر طرح کا علاج بالکل مفت کر دیا چاہے اس علاج کی قیمت ہزاروں روپے ہی کیوں نہ ہو۔ سراج الحق نے مزید بتایا کہ ہم نے نہایت احتیاط سے حساب کتاب لگایا تو معلوم ہوا کہ صوبے میں اگر پوری تندہی اور دیانتداری سے زکوٰۃ جمع کی جائے تو اس کی مالیت 11 ہزار بلین روپے بنتی ہے۔ اتنی خطیر رقم سے صوبے میں خوشحالی کا انقلاب لایا جا سکتا ہے ۔
گزشتہ تین چار ماہ سے ملک میں جاری ضد ،انانیت اورہٹ دھرمی اور کشاکش کی سیاست کے دوران سراج الحق کاایک معتدل سوچ اور اپروچ امیر کی حیثیت سے تاثر بہت نمایاں ہوا۔مگر اجتما ع کے دوسرے روز سابق امیر جماعت سیدّمنور حسن نے اپنی شعلہ بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ سب سن لیں میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہوں کہ ہمارے مسائل صرف جمہوریت اور انتخابات سے حل نہ ہوں گے اس کے لئے ہمیں جہاد اور قتال کا کلچر عام کرنا پڑے گا۔
منور حسن کا یہ بیان جماعت اسلامی کی فکر ،اس کے دستور اور جماعت کے تنظیمی نظام سے شدید قسم کا انحراف ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل میں مولانا مودودی بڑے واضح انداز میں فرمایا تھا کہ آپ جس ملک میں کام کررہے ہیں وہاں ایک آئینی وجمہوری نظام قائم ہے اور اس نظام میں قیادت کی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے ۔ اور وہ ا نتخابات ہیں نیز پالیسی بیان دینا صرف موجودہ امیر جماعت کا استحقاق ہے۔
جماعت اسلامی اپنے کارکنان اور قائد ین کا احتساب کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر اور شوریٰ کی طے شدہ پالیسی کی مخالفت پروہ سابق امیر کا کیسے احتساب کرتی ہے۔
بہرحال تین چار لاکھ کا نہایت پرامن اور بامقصد اجتماع دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے باعث تقلید ہے ۔اس اجتماع میں اقلیتوں کے نمائندوں کی حیثیت سے ہندو سکھ اور عیسائی کمیونٹی کے بااثر لوگوں نے شرکت کی۔اسی طرح عرب ملکوںسے پچاس قائدین تشریف لائے اور انہوں نے اجتماع کی کارروائی کو بہت سراہا ۔ انہوں نے کہا کہ سارے عالم اسلام میں ہم انتخابی عمل کے ذریعے پرامن تبدیلی کے خواہاں ہیں۔سراج الحق نے مینار پاکستان لاہور پر خوش حال پاکستان کا خاکہ پیش کیا ہے اس خاکے میں وہ 25دسمبر کو مزار قائد کراچی کے وسیع وعریض میدان میں عملی پروگرام کا رنگ بھریں گے۔