انگریزی میں ایک کہاوت ہے کہ جب کبھی روم جاؤ تو وہی کرو جو روم والے کرتے ہیں۔ ہوا یہ کہ ہم جب روم گئے تو دیکھا کہ روم والے ہمارے مولانا جلال الدین رومی کے مدّاح ہورہے ہیں۔ ہم نے کہاوت پرعمل کیا اور ہم بھی تیرہویں صدی کے اس عظیم شاعر، قاضی، عالمِ دین اور صوفی کے گن گانے لگے۔ مگر پھر کیا ہوا۔ اپنی کم عقلی کا احساس ستانے لگا۔ رومی کے اقوال پڑھنے پر یہ تو محسوس ہوا کہ ایسے ذہن کی تخلیق ہیں جو انسان کو کم ہی نصیب ہوتا ہے مگر ساتھ ہی جستجو ایک پھانس بن کر ہمارے دل و دماغ میں چبھنے لگی۔ ان کی بات سمجھ میں توآرہی تھی لیکن عقل میں نہیں سما پارہی تھی۔ یہ تھا وہ تجسس جو ہمیں شہر بہاول پور لے گیا۔ وہاں اہلِ دانش دو ادارے قائم کر رہے تھے:اردو گھر اور رومی فورم۔ اردو گھر تو خیر ہمارے گھر کی بات تھی، رومی فورم کے لئے ترکی کے چار مفکروں کو بلایا گیا تھا۔ سوچا کہ قونیہ میں مدفون رومی کی خاک سے اٹھ کر آنے والوں کی زبانی سن کر دیکھیں، شاید کہ سات سو سال سے کہی جانے والی بات وہ بہتر طور پر سمجھا سکیں۔ یہی ہوا۔ ہم کیا سمجھے یہ آپ کو ذرا دیر بعد سمجھائیں گے، پہلے یارِ من کی بات سنئے جو ترک ہے اور بدلتے ہوئے زمانے میں اس کی زبان انگریزی بھی ہو گئی ہے ، نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہم اس کی بات سمجھنے لگے ہیں۔ وہاں سے آنے والوں میں ایک تو ہمارے جانے پہچانے ڈاکٹر خلیل طوقار تھے جو استنبول یونی ورسٹی میں مشرقی زبانوں کے شعبے کے سربراہ ہیں اور ہماری آپ کی طرح اردو بولتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر تھوڑی بہت پنجابی بھی بول لیتے ہیں کیونکہ خیر سے ان کی گھر والی پاکستانی ہیں۔ ان کے علاوہ اسلام آباد کے رومی فورم کے سربراہ سوات ارگوان بھی آئے تھے جو سات آٹھ سال سے پاکستان میں مقیم ہیں اور اردو سمجھ لیتے ہیں۔ یہ بات بتانے میں انہوں نے ذرا سی بھی دیر نہیں لگائی تاکہ لوگ محتاط رہیں۔ تیسرے مہمان سعید سالک تھے جو کراچی میں رومی فورم کے ڈائریکٹر ہیں اور حال ہی میں آئے ہیں۔ان سے سن کر حیرت ہوئی کہ ترکی والے مولیٰنا کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہیں اور ان کی بات دنیا میں پھیلانے کے لئے سفیروں کی طرح اپنے دانش وروں کو مختلف علاقوں میں بھیجتے رہتے ہیں۔ سعید سالک اس سے پہلے میانمار میں مقیم تھے جسے ہم برما کے نام سے جانتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ وہ وہاں بدھوں کو رومی کا فلسفہ سمجھا رہے تھے۔ خود گوتم بدھ کا فلسفہ مارے ڈالتا ہے اوپر سے مولانا روم کی فکر کا پرچار، بدھوں کے دل و دماغ پر کیا گزری ہوگی۔
مجھے بہاول پور جانے کے لئے ملتان کا طیارہ ملا جس میں پہلی بار اپنے دوترک مہمانوں سے تعارف ہوا۔ ملتا ن سے ہم کار کے ذریعے بہاول پورگئے۔ اس دوران ان سے دنیا زمانے کی باتیں ہوتی رہیں اور وہ بتاتے رہے کہ ترکی والے ہمارے علامہ اقبال کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اقبال کا رومی سے کیا تعلق تھا اس سے بھی واقف ہیں کہ وہ رومی کو اپنا مرشد کامل مانتے تھے اور بڑے ہی مدّاح تھے۔ کیوں نہ ہوتے ، رومی کو سمجھنے کے لئے انسان کا ذہن کم سے کم اقبال جیسا تو ہو۔ ہمیں تو اقبال کے قریب سے گزرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، وہ بھی کیا کم ہے۔ ہمارے ترک دوستوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ترکی میں جسے اپنے سیکولر ہونے پر ناز تھا، دین کی ترویج ہورہی ہے۔ مسجدوں میں جہاں صرف بڑوں بوڑھوں کا آنا جانا ہوتا تھا اب صفیں کی صفیں نوجوانوں کی نظر آنے لگی ہیں ۔ چنانچہ ملتان اور بہاول پور کے عین وسط میں نماز کا وقت ہوگیا اور ہمارے دونوں ترک مہمانوں نے کار رکوا کر نماز ادا کی۔ ایک اوراچھی بات ملتان کے ہوائی اڈے پر ہوئی جس نے مجھے مسرور کیا۔ طیارے سے اتر کر ہم سب کو ایک بس پر سوار ہونا تھا۔ میں اور سعید سالک بس میں داخل ہوئے تو وہ بھرچکی تھی۔ میرے سفید بال دیکھ کر ایک نوجوان نے اپنی نشست خالی کردی اور اصرار کر کے مجھے اپنی جگہ بٹھایا۔ بیٹھتے ہوئے میں نے سعید سالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے مہمان ترکی سے آئے ہیں ۔ میری بات سنتے ہی دوسرے نوجوان نے اپنی نشست خالی کردی اور اپنی جگہ مہمان کو بٹھایا۔ اس پر سعید سالک کہنے لگے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ پاکستانی نوجوان اتنے اچھے ہوتے ہیں۔ اس پر میں نے انہیں استبول کے نو جوانوں کا قصہ سنایا جنہوں نے مجھ سے یہ سننے کے بعد کہ میں پاکستانی ہوں، وہیں بیچ بازار جیوے جیوے پاکستان گایاتھا۔
ہمارے چوتھے ترک مہمان مصطفی ایلمز تھے جو پاکستان میں ترکی کے قائم کئے ہوئے بے مثال اسکولوں کا نظام چلاتے ہیں۔ان کے بہاول پور آنے کا قصّہ یوں ہے کہ ملک کے مایۂ ناز ماہر تعلیم ڈاکٹر اسلم ادیب جو بہاول پور میں رہتے ہیں اور دنیا زمانے کے تعلیمی ادارے دیکھ چکے ہیں، انہیں اسلام آباد جانے اور وہاں پاک ترک اسکول دیکھنے کا موقع ملا۔ ان کا یہ جملہ مجھے یاد رہے گا کہ میں نے اس سے بہتر اسکول نہیں دیکھا۔ چنانچہ مصطفی ایلمز کو بہاول پور بلایا گیا کیونکہ شہر والوں کی خواہش ہے کہ اسلام آباد جیسا ہی ایک اسکول یہاں بھی قائم ہو۔ اس کی ضرورت کا قصہ بھی کچھ کم دل چسپ نہیں۔ ہوا یہ کہ ایک بار ڈاکٹر اسلم ادیب کے سر میں سودا سمایا کہ غریب بستیوں میں قائم سرکاری اسکولوں میں ضروری تو نہیں کہ پڑھنے والے بچے دوسروں سے کم ہوں۔ انہوں نے وہاں لڑکیوں کے اسکولوں میں ہونہار بچّیاں چنیں اور جی لگا کر ان کی تربیت کی۔ دیکھتے دیکھتے ان کی ذہانت رنگ لے آئی اور جب میں پہلی بار ان نو عمر لڑکیوں سے ملا تو ان کا اعتماد اور اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی پر ان کی دسترس دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ بالکل یہی واقعہ اس شام مصطفی ایلمز کے ساتھ پیش آیا جب ایک تقریب میں ان کی ملاقات بہاول پور کی ذہین لڑکیوں سے کرائی گئی۔ لڑکیاں اتنے اعتماد اور یقین کے ساتھ باتیں کررہی تھیں کہ ترک مہمان حیران رہ گئے اور اسی شام طے پاگیا کہ ایسی نسل کے لئے شہر میں نہایت اعلیٰ درس گاہ کی ضرورت ہے۔
ان تین دنوں کی تقریبات میں اردو گھر کا افتتاح ہوا۔مسعود صابرکی سرپرستی میں ہماری زبان کا یہ بڑا مرکز قریب قریب مکمل ہے جہاں اردو کے تعلق سے سرگرمیاں ہوا کریں گی ۔ اس کے علاوہ شہر میں رومی فورم کا افتتاح ہوا، مولانا اور اقبال کے افکار پر مذاکرے ہوئے جن میں ترکوں نے رومی کو اپنے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے اس موقع پر اقبال کی اس نظم کی باریکیوں میں جاکر شاعر کااندازِفکراجاگر کیا جو نظم لاکھوں نہیں ، کروڑوں کی زبان پر چڑھی: لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری۔
اب رہ گئے مولانا جلال الدین محمد رومی بلخی جن کے افکار سمجھانے کے لئے ہمارے ترک مہمانوں نے بہت زور صرف کیا۔ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ رومی کے ذہن کو سمجھنے کے لئے ان ہی جیسا ذہن بھی درکار ہے، وہ ہمارے حصے میں نہیں آیا۔ میں نے کہا کہ رومی کو سمجھا نہیں جا سکتا ، صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کے اقوال کے دریچوں میں جھانکیں تو کچھ ایسے خیالات درخشاں نظر آتے ہیں:
جب ایک چراغ نے کسی شمع سے نور حاصل کیا ہو تو جس نے اس چراغ کو دیکھا، یقینا اس شمع کو دیکھا۔ وہ آدمی جو اپنی عظمت اور بزرگی کے لحاظ سے دنیا بھر میں نہیں سما سکتا، ایک کانٹے کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ محبت کی تلاش کرنا تمہارا کام نہیں بلکہ اس کی راہ میں تم نے جو رکاوٹیں کھڑی کی ہیں انہیں ڈھونڈو۔ کائنات میں جو کچھ ہے تمہارے اندر ہے ،اسے اپنے اندرتلاش کرو۔ تمہیں جس کی تلاش ہے، اُسے تمہاری تلاش ہے۔ تم پروں کے ساتھ پیدا ہوئے، پھرزندگی میں رینگنا کیوں چاہتے ہو۔ خاموشی خدا کی زبان ہے، باقی سب کچھ معمولی ترجمہ ہے۔ کل میں ہوشیار تھا اور دنیا کو بدلنا چاہتا تھا، آج میں عقل مند ہوں اور خود کو بدل رہا ہوں۔ اور آخر میں رومی کے سنگِ مزار پر لکھا ہوا فقرہ،’’جب ہم مرجائیں تو ہمارا مزار زمین پر نہ ڈھونڈنا، انسان کے دل میں تلاش کرنا‘‘۔